آزاد کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں کئی جگہوں پر شادی بیاہ میں پرانی روایات کو آج بھی زندہ رکھا گیا ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی وادی نیلم کے دور دراز گاؤں ’کھٹا چگلی‘ کی ہے جہاں حال میں ایک شادی میں دلہن کو ڈولی میں بٹھا کر رخصت کیا گیا۔
اس روایت کے مطابق دلہن کے بھائی ڈولی کو کندھے پر اٹھا کر دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے دلہا کے گھر پہنچاتے ہیں۔ جب بارات دلہن کو لینے جاتی ہے تو دلہا کے دوست خالی ڈولی کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔
یہاں یہ بھی رواج ہے کہ دلہا کے ایک سے زیادہ دوست ہوتے ہیں۔ اس شادی میں دلہا کے 23 دوست تھے۔ ان دوستوں کو دولہا کی طرف سے ایک جیسے کپڑے تحفے میں دیے جاتے ہیں۔ سارے دوست بارات والے دن وہ کپڑے پہن کر دلہے کے گھر سے نکلتے ہیں اور اس جگہ جاتے ہیں جہاں پیسے دیے جاتے ہیں جسے مقامی زبان میں سلامی کہتے ہیں۔
جس شخص کو سلامی جمع کرنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے وہ ایک ایک کر کے دولہے کے دوستوں کا نام پکارتا ہے۔ جس کا نام پکارا جاتا ہے وہ جاتا ہے اور اسے پیسے دینا ہوتے ہیں۔ جس کا نام سب سے پہلے پکارا جاتا ہے اگر اس نے سلامی میں ایک ہزار روپے دیے تو اس کے بعد آنے والے دوست کو اس سے زیادہ پیسے جمع کروانا ہوتے ہیں۔ آخری دوست تک یہ رقم بڑھتی جاتی ہے۔ اس میں خوش قسمت وہ ہوتا ہے جس کا نام سب سے پہلے پکارا جاتا ہے کیوں کہ اس کو کم پیسے دینا پڑتے ہیں۔
اسی طرح یہاں یہ بھی رواج ہے کہ شادی پہ آئے ہوئے مہمانوں کو کھانا پیش کرنے کی ذمہ داری گاؤں کے لوگ مل کر انجام دیتے ہیں۔
شادی پہ آئے ہوئے مہمانوں کو کھانا کھلانے کے لیے کسی ہال یا کمرے میں لکڑی کے بینچ بنائے جاتے ہیں جس پہ مہمانوں کو بٹھایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے مہمانوں کے ہاتھ دھلائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کے سامنے پلیٹس رکھی جاتی ہیں۔
ایک نوجوان مہمانوں کے آگے چاولوں کا ٹرے لے کر آتا ہے جو مہمانوں کے آگے رکھا جاتا ہے اور مہمان اپنی مرضی سے اپنی پلیٹ میں چاول ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور نوجوان برتن میں سالن لے کر آتا ہے اور مگ سے چاولوں والی پلیٹ میں سالن ڈالتا ہے۔ ایک اور شخص ہر پلیٹ میں گوشت رکھتا ہے۔
کھانے کے آخر میں میٹھے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے زیادہ تر دیہی علاقوں میں میٹھے میں زردہ بنایا جاتا ہے۔
مزید جانیے اس ویڈیو میں