یہ اواخر جون 1999 کا کوئی دن تھا جب اخبارات میں چلّاتی ہوئی ایک سرخی شائع ہوئی:
’وزیر اعظم نواز شریف امریکا جائیں گے‘
یہ بیان فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کا تھا۔ سوال یہ تھا کہ وزیر اعظم امریکا کیوں جائیں گے؟ ان کا امریکا جانا اگر ضروری بھی ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کا اعلان فوج کے سربراہ کیوں کر رہے ہیں، وزارت خارجہ کیوں نہیں کر رہی یا خود وزیراعظم کا اپنا دفتر اس بارے میں کیوں خاموش ہے؟
سوالات تو اور بھی بہت سے تھے لیکن ان کا جواب لوگوں کو معلوم نہیں تھا یا جنھیں معلوم تھا، انھوں نے اپنی ہونٹ سی رکھے تھے۔
کرنل اشفاق حسین آئی ایس پی آر سے وابستہ ایک اہم افسر رہے ہیں جنھوں نے کارگل آپریشن اور اس سے وابستہ واقعات کو اپنی کتاب ’وٹنیس ٹو بلنڈر‘ میں جس کا ترجمہ ’جنٹل مین استغفرُاللہ‘ کے نام شائع ہو چکا ہے، لکھا ہے کہ کارگل جنگ کا دائرہ وسیع ہو چکا تھا۔ خطرہ تھا کہ کہیں بھرپور جنگ ہی شروع ہو جائے، جنرل پرویز مشرف پریشان ہو گئے اور انھوں نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے درخواست کی کہ وہ جنگ کو روکنے کے لیے کوئی کردار ادا کریں۔ انھوں نے تجویز کیا کہ اس سلسلے میں امریکا سے مدد لی جائے۔ اب قیاس ہی کیا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نے ان کی تجویز مان لی ہوگی جب ہی انھوں نے ایسا بیان جاری کیا ہوگا تاکہ بعد میں کسی مرحلے پر وزیر اعظم اپنی رائے پر نظر ثانی کرنا بھی چاہتے ہوں تو بھی وہ ایسا نہ کر سکیں۔
کرنل اشفاق کی گواہی سے یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ جنرل مشرف وزیراعظم کو امریکا کیوں بھیجنا چاہتے تھے لیکن یہ سوال بھی تو اپنی جگہ مستقل اہمیت رکھتا ہے کہ جنگ کے پھیل جانے کا سبب کیا تھا؟
اس کہانی کا آغاز یوں سمجھ لیجیے کہ بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ پاکستان سے ہوتا ہے۔ تاریخ یہ تسلیم کرتی ہے کہ ان کے دورہ پاکستان سے اکھنڈ بھارت کے نظریے کو ضعف پہنچا اور مسئلہ کشمیر کے حل کا امکان پیدا ہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے مخالفین بھی ان کے دور میں ہونے والی اس پیش رفت کو ان کی ایک بڑی سیاسی کامیابی قرار دیتے ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی اور ق لیگ کا حصہ بن جانے والے جنرل مجید ملک بھی شامل ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب ‘ چاہ یوسف سے صدا’ میں مسٹر واجپائی کا ایک طنزیہ جملہ نقل کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ جو بس لاہور سے دہلی چلائی جا رہی تھی، اس کی منزل کارگل ہوگی۔
کارگل کی تقریباً سولہ ہزار فٹ بلند چوٹیاں دفاعی اعتبار سے کافی اہمیت رکھتی ہیں کیوںکہ ان کے ذریعے لداخ کو لیہہ اور سری نگر سے ملانے والے راستے پر نظر رکھ کر بھارت کی سپلائی لائن کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
جنرل مجید ملک لکھتے ہیں کہ پاکستانی افواج نے فروری 1999ء میں ان چوٹیوں پر قبضہ کرلیا۔ یہ عین وہی وقت تھا جب مسٹر واجپائی کے دورہ پاکستان کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہو رہی تھی۔ نواز شریف نے اس موقع کو دونوں ملکوں کے درمیان رابطے کا ایک غیر رسمی چینل قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی تھی کہ اس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رہ سکے گا اور مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی صورت پیدا ہوجائے گی۔ان کے خیال میں فوج کے اس وقت کے سربراہ سمیت بعض دیگر لوگ اس پیش قدمی کے خلاف تھے جسے ناکام بنانے کے لیے کارگل کی کارروائی شروع کردی گئی۔
کیا وزیر اعظم نواز شریف اس آپریشن کے بارے میں جانتے تھے؟ ان کا مؤقف ہے کہ فوج نے اس معاملے پر انھیں کبھی اعتماد میں نہیں لیا۔ اس کے برعکس جنرل پرویز مشرف اس مؤقف کو بہتان قرار دیتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فوج نے وزیراعظم کو 29جنوری 1999ء اور اس کے بعد 5 فروری 1999ء کو ان معاملات سے آگاہ کیا جب کہ نواز شریف کا مؤقف ہے کہ کارروائی کے چار ماہ کے بعد اس معاملے میں انھیں معمولی نوعیت کی معلومات فراہم کی گئیں۔ انھیں بتایا گیا کہ اس کارروائی میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوگا اور نہ فوج اس کارروائی میں شریک ہوگی۔
لیفٹننٹ جنرل شاہد عزیز نے جو جنرل پرویزمشرف کے انتہائی بااعتماد افسر تھے، لکھا ہے کہ اس کارروائی کے بارے میں جنرل پرویز مشرف، لیفٹننٹ جنرل محمد عزیز خان کمانڈر دسویں کور، لیفٹننٹ جنرل محمود اور ناردرن ایریا فورس کے کمانڈر میجر جنرل جاوید حسن کے علاوہ کسی اور کو کوئی اطلاع نہ تھی، یہاں تک کہ ملٹری آپریشنز ڈائریکٹریٹ کو بھی اس معاملے کی خبر اس وقت ہوئی جب پانی سر سے گزر چکا تھا ۔
جنرل مجید ملک نے نوازشریف کے مؤقف کی بنیاد پر لکھا ہے کہ انھیں اس معاملے کی پہلی اطلاع 17 مئی 1999ء کو ملی۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ اطلاع بھی فراہم کی ہے کہ اس کارروائی سے 12ویں ڈویژن کے کمانڈر جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی لاعلم تھے، آزاد کشمیر کا دفاع جن کی ذمہ داری تھی۔ بعد میں جب انھیں اس کارروائی کی اطلاع ملی تو انھوں نے بھی اس کی مخالفت کی۔
کرنل اشفاق حسین اس زمانے میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز آئی ایس پی آر کے شعبے سے وابستہ تھے۔انھوں نے لکھا ہے کہ وزیراعظم کو اس کارروائی کی پہلی اطلاع اپنے بھارتی ہم منصب کے ذریعے ملی جبکہ سیکرٹری دفاع کو اس کی خبر ایک غیر ملکی جریدے سے ملی۔ خود جنرل پرویزمشرف اگرچہ اخفا کے معاملے کو مسترد کرتے ہوئے اسے بہتان قرار دیتے ہیں لیکن انھوں نے اپنی کتاب میں ایک ایسی اطلاع بھی فراہم کی ہے جس سے اس کارروائی کو خفیہ رکھنے کی اطلاعات کو تقویت ملتی ہے، وہ لکھتے ہیں:
”تمام فوجی معلومات ضرورت کی بنیاد پر دی جاتی ہیں۔اس سے پہلے انھیں (دیگر ذمہ داروں کو) اس قسم کی معلومات کی ضرورت نہیں تھی۔اس سے یہ بھی واضح ہوجانا چاہیے کہ نیول چیف اور فضائیہ کے چیف کو بھی اسی وجہ سے یہ معلومات اس وقت تک نہیں دی تھیں جب تک بھارت کے حملے دیوانگی کی حدتک نہ پہنچ گئے۔‘‘
جنرل پرویز مشرف نے بھارت کے جن حملوں کو دیوانگی کی حد تک پہنچا ہوا قرار دیا، نواز شریف کے مطابق ان حملوں میں 2700 جوان شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ شہداکی یہ تعداد 1965ء اور 1971ء میں ہونے والے جانی نقصان سے بھی زیادہ تھی۔ نواز شریف کے مطابق اس صورت حال پر جب جنرل مشرف سے پوچھا گیا کہ آپ نے تو دعویٰ کیا تھا کہ جانی نقصان نہیں ہوگا تو انھوں نے اس کے جواب میں بھارت کی طرف سے کارپٹ بمباری کا عذر پیش کیا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو پہلے اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح کی صورت حال پیش آسکتی ہے تو انھوں نے تسلیم کیا کہ انھیں اس کا اندازہ نہ تھا۔
فوجی نکتہ نگاہ سے کسی کارروائی کو اس قدر پوشیدہ کیوں رکھا جاتا ہے؟جنرل شاہد عزیز کے مطابق اس کا ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے کہ منصوبہ فوجی لحاظ سے کمزور ہو یا اس کی تیاری نہایت محدود ہو۔وہ لکھتے ہیں کہ اس کارروائی کے لیے اتنے نامناسب وقت کا انتخاب کیا گیا کہ کسی بھی سطح پر اسے حمایت حاصل نہ ہو پاتی۔اسی بنیاد پر وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کا راز شاید کبھی نہ کھل سکے۔
آپریشن کے بارے میں تاثر یہی دیا گیا تھا کہ یہ ایک محدود نوعیت کی کارروائی ہوگی لیکن اس زمانے کی فوجی قیادت خود اسے تسلیم نہیں کرتی۔ جنرل شاہد عزیز نے لکھا ہے کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ ایک کور کی سطح کا چھوٹا سا آپریشن تھا کیوںکہ اس کے نتیجے میں دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور ملک بدنام ہو گیا۔ اس کارروائی کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کا بھاری جانی نقصان ہوا۔ نواز شریف کے مطابق ان کارروائیوں میں پوری ناردرن لائٹ انفینٹری (این ایل آئی )تباہ ہوگئی جب کہ دو ہزار سات سو جوان شہید ہوئے۔
فوج کے نفسیاتی آپریشنز کے شعبے کے سابق مشیر ڈاکٹر سید مطیع الرحمن کے مطابق بھارت کی 14 رجمنٹوں نے ہمارے فوجیوں پر گولہ بارود کی بوچھاڑ کر دی جب کہ پیدل فوج کے دستے لہر در لہر آگے بڑھتے رہے جنھوں نے ایک ایک کر کے وہ تمام چوکیاں خالی کرالیں جو ہمارے فوجیوں نے قائم کی تھیں۔ ہمارے معصوم فوجی زخمی مرغابیوں کی طرح مارے گئے۔ جب یہ صورتحال پیدا ہوئی تو جنرل مشرف اور جنرل محمود پریشان ہوگئے اور انھوں نے جنرل شاہد عزیز سے درخواست کی کہ وہ تجزیہ کرکے اس صورت حال سے نمٹنے اور پاکستانی پوسٹیں بھارت کے قبضے میں جانے سے روکنے کی کوئی تدبیر کریں۔ اس طرح جنرل مشرف کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا کہ پاکستان کمزور نہیں تھا اور دشمن اسے نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا ۔
یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس میں جنرل مشرف کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ بھارت کو جنگ کا دائرہ بڑھانے سے روکنے کے لیے امریکا کی مدد حاصل کی جائے۔ چناں چہ فوج کے سربراہ نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔ نواز شریف نے اس موقع پر جنرل مشرف سے سوال کیا کہ کیا یہ سب کچھ کسی منصوبہ بندی کے بغیر کیا گیا تھا؟ اس کے جواب میں انھیں بتایا گیا کہ منصوبہ بندی تو تھی لیکن بس یہ ہوگیا اس لیے اس معاملے کا حل نکالا جائے۔ یہ پس منظر تھا جس میں وزیراعظم کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے پڑے کیوںکہ اس وقت تک بھارت کراچی کا بحری محاصرہ بھی کر چکا تھا ۔ ان حالات میں وزیراعظم نے جنگ بندی کے لیے امریکا جانے کا فیصلہ کیا تو اس معاملے میں جنرل پرویز مشرف اس قدر بے چین تھے کہ وہ انھیں رخصت کرنے کے لیے خود ایئرپورٹ پر پہنچ گئے۔
واشنگٹن میں امریکی صدر سے بات چیت کے دوران میں انکشاف ہوا کہ فوج نے صرف معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول ہی عبور نہیں تھی بلکہ وزیراعظم کی اجازت کے بغیر ایٹمی ہتھیار بھی ایک سے دوسری جگہ منتقل کیے تھے۔ وزیراعظم کی طرف سے جنگ بندی کی درخواست پر امریکی صدر کلنٹن نے جب بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے بات کی تو انھوں نے کسی قسم کے تعاون سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ پاکستان نے شروع کی ہے لہٰذا یہ اس کی اپنی مرضی ہے کہ وہ اسے بند کرے یا نہ کرے۔
واجپائی نے کشمیر کے سلسلے میں بھی کسی قسم کی یقین دہانی سے انکار کردیا۔ یہ بات چیت کافی ناخوش گوار تھی، خاص طور پر ایٹمی اثاثوں کی نقل و حرکت کا معاملہ نہایت سنگین تھا۔ اس صورت حال میں امریکا کی طرف سے یک طرفہ طور پر پسپائی کی تجویز پیش کی گئی جسے قبول کرلیا گیا۔
شجاع نواز کی تحقیق کے مطابق وزیراعظم کے دورہ امریکا سے قبل امریکی جنرل انتھونی زینی 24جون کو پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے تھے جس میں انھوں نے یہ شرط تسلیم کرا لی تھی کہ وزیراعظم کی واشنگٹن روانگی سے قبل پاکستان کی طرف سے فوج کی پسپائی شروع ہوجائے گی۔
جنرل پرویز مشرف اس مرحلے پر مکمل طور پر خاموش رہے جس کا مطلب یہی تھا کہ اس شرط پر انھیں کوئی اعتراض نہیں۔ پاکستانی فوج کی پسپائی کے عمل کو امریکا کی طرف سے سیٹلائٹ پر مانیٹر کیا گیا جیسے ہی پسپائی کے ثبوت مل گئے، امریکی صدر نے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات پر آمادگی ظاہر کردی۔ اس پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کا یہ دعویٰ زیادہ وزن نہیں رکھتا کہ وہ فوج کی پسپائی کے سلسلے میں نواز شریف کے فیصلے میں حصہ دار نہ تھے۔
نواز کلنٹن ملاقات کے روداد نویس(Note Taker) بروس ریڈل (Bruce Riddlنے خیال ظاہر کیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کو اندازہ تھا کہ واشنگٹن میں وہ جو مفاہمت کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں وطن واپس جا کر ان کے اور فوج کے درمیان تعلقات میں پیچیدگی اور مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ ان کی گرفتاری کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ انھیں یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ وہ وطن واپس نہ جائیں تاکہ ممکنہ طور پر پیدا ہونے والی مشکلات سے محفوظ رہیں لیکن میاں نواز شریف نے ایسا کوئی مشورہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا وہ واپس وطن لوٹ آئے اور اس بحران کا سامنا کیا جو ان کی راہ دیکھ رہا تھا۔
وزیراعظم کی پاکستان واپسی کے ساتھ ہی نہ صرف فوج کے ساتھ ان کی کشیدگی میں اضافہ ہوا بلکہ سیاسی اور خاص طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں نے ان کے خلاف محاذ گرم کردیا اور ان کے خلاف جلسے جلوس منعقد کیے جانے لگے جن میں انھیں قومی مفادات سے روگردانی کا مجرم قرار دیا گیا۔
وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکا کے بارے میں کئی سابق فوجی افسروں اور سیاست دانوں نے اپنے بیانات، انٹرویوز اور خود نوشتوں میں اظہار خیال کیا ہے لیکن اس سلسلے میں بروس ریڈل کی گواہی سب سے زیادہ سنسنی خیز ہے جن کے مطابق امریکی صدر نے جب چھٹی کے باوجود جنوبی ایشیا کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کرنے والے بحران کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات اس اعتبار سے غیر معمولی تھی کہ وزیر اعظم کو جنرل مشرف کے بہت سے اقدامات کی خبر اس ملاقات میں ہوئی اور انھیں شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا۔ البتہ وہ ان کے حوصلے کی تعریف کرتا ہے کہ اگرچہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے ملک کا مفاد مقدم رکھا اور فوج کو ممکنہ طور پر ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔