سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے آرڈر آف دی کورٹ جاری ہی نہیں کیا، تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دیدی؟ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ اورالیکشن از خود نوٹس کیس میں فیصلہ 3-4 ہی سے ہوا تھا۔
بدھ کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے جسٹس جمال خان مندوخیل نے انتخابات کی تاریخ پر سوال اٹھا دیا اور ریمارکس دیے ہیں کہ چارججز کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہے، یہ آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس پاکستان نے جاری ہی نہیں کیا، جب فیصلہ ہی نہیں تھا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی، الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟ آج عدالت کے ریکارڈ کی فائل منگوالیں، اس میں آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے، آرڈر آف دی کورٹ پر تمام جج دستخط کرتے ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ’ کل میرے ریمارکس پر بہت زیادہ کنفیوژن پیدا ہوئی ہے، میں اپنے ریمارکس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے تفصیلی آرڈر پر قائم ہوں۔ فیصلے کا ایک حصہ انتظامی اختیارات کے رولز سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس کو کہیں گے کہ رولز دیکھنے کے لیے ججز کی کمیٹی بنائی جائے، ججز کی کمیٹی انتظامی اختیارات کے رولز کو دیکھے، فیصلے کےدوسرے حصےمیں ہم 4 ججز نے ازخود نوٹس اور درخواستیں مسترد کی ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ ایک ایک حرف جو میں نے لکھا اس پر قائم ہوں، میں نے انتظامی اختیارات کے معاملے کو اندرونی معاملہ قرار دیا، ہم نے ازخود نوٹس اور درخواستیں 4-3 کی شرح سے مسترد کیں۔
واضح رہے کہ 27مارچ بروز پیر کو پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی تو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی فیصلہ سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ از خود نوٹس 4 ججز نے مسترد کیا اس لیے یہ فیصلہ 3-4 کا ہے۔
اختلافی فیصلے میں دونوں ججز نے کہا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے 23 فروری کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
تیسرے روز کی سماعت
آج 29مارچ بروز بدھ ، صبح سپریم کورٹ میں صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت آج تیسرے روز شروع ہوئی۔
تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سماعت کر رہے ہیں۔
پانچ رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔
سماعت شروع ہونے سے پہلے سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے انتخابات التوا کیس میں فریق بننے کی درخواست وصول کرلی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور فاروق ایچ نائیک کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ آپ کی جو گذارشات ہیں وہ تحریری صورت میں دے دیں، فاروق نائیک نے کہا کہ اسی لیے پارٹی بننے کی درخواست دی ہے، مقدمہ میں فریق بنایا
جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سن لیں گے آپ درخواست دیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اختیارات کے نقطہ پر فیصلہ کریں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات کا نکتہ نہیں ہے۔ فاروق نائیک نے کہا کہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں یے، رجسٹرار آفس ہماری درخواست ہی نہیں لیتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آفس کو ہم کہہ دیتے ہیں آپ درخواست دے دیں۔
اس موقع پرعرفان قادر بولے کہ ایک جملہ کہنا چاہتا ہوں۔ اگرمجھے عدالت نہیں سننا چاہتی تو مجھے اعتراض نہیں ، بے شک دوسرے وکیل کو سن لیں. صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ عدالت مجھے الیکشن کمیشن کے وکیل کے طور پرسننا چاہتی ہے یا نہیں؟ بینچ کہہ دے کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی نہ کروں تو چلا جاؤں گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے گزشتہ روز حامد علی شاہ اور سجیل سواتی پیش ہوئے تھے۔ جس پر عرفان قادربولے’ ٹھیک ہے، میں چلا جاتا ہوں۔‘ اور پھر وہ کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل کے مابین دلچسپ مکالمہ
دوران سماعت جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل کے درمیان دلچسپ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کو جس طرح سمجھا اس پر عمل کیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے دوست جسٹس جمال مندوخیل نے ایک آبزرویشن دی، کسی قانونی طریقہ کار کے تحت اقلیت خود کو اکثریت میں نہیں بدل سکتی، مذکورہ فیصلہ تین دو کا ہے، پانچ ججز نے فیصلہ پر دستخط کیے ہیں۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیا کہ کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ ہوا میں تحلیل ہو جائے گا؟ عدالتی حکم نامے میں کہیں نہیں لکھا کہ یہ دونوں ججز بینچ کا حصہ نہیں تھے۔ اس پر چیف جسٹس نے جسٹس جمال مندوخیل سے کہا کہ ہمارے چیمبر کے معاملات چیمبر تک ہی رہنے چاہئیں۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ’میں نے کہا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے ۔اس کا مطلب تھا کہ ججز کی مشاورت چل رہی ہے اس لیے ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔‘
وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ دو ججز کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد آپ کی رائے کیا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ اس پر مجھے ہدایات لینا ہوں گی۔
سجیل سواتی نے کہا کہ ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں، عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھا دیں گے، رپورٹس میں بھکر میانوالی میں ٹی ٹی پی ، سندھو دیش سمیت مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے لیے 4لاکھ 12ہزار کی نفری مانگی گئی، 2 لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ 8فروری کے لیٹرز ہر انحصار کر رہے ہیں، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے؟ دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پس منظر کے طور پر ان رپورٹس کا حوالہ دیا، الیکشن کمیشن نے فیصلہ 22 مارچ کو کیا، اس سے پہلے یہ گراؤنڈز دستیاب تھے، اس کے بعد انتخابات کے حوالے سے میٹنگ ہوئی، وزارت داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں امن و امان کی خراب صورتحال کا ذکر کیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں 20 ارب کا ذکر ہے لیکن کل عدالت کو 25 ارب کا بتایا گیا۔ سجیل سواتی نے جواب دیا کہ 5ارب روپے پہلے ہی الیکشن کمیشن کو جاری ہو چکے ہیں۔ وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کر سکتے، سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ 20ارب روپے جاری کرنا ناممکن ہو گا،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’اس کے علاوہ بہت سارے سوالات ہیں، جسٹس منیب اختر کے ‘سوالات نوٹ کر لیں، آپ دلائل دیں پھر سوالوں کے جواب دیں۔ بعدازاں سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔
وقفہ کے بعد سماعت
وقفے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل دوبارہ شروع کیے تو جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ اپنی آئینی ذمہ داری سے بھاگ رہے ہیں۔ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا ’ ہم اپنی آئینی ذمہ داری سے نہیں بھاگ رہے، الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا اور اداروں کے عدم تعاون پر پورا شیڈول منسوخ کر دیا ۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کہتا ہے، آپ نے 90 روز میں انتخابات کرانے ہیں، اگر کوئی تعاون نہیں کررہا تو آپ عدالت آتے نہ کہ پورا عمل ہی منسوخ کردیا، کیا آپ اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام نہیں رہے، آپ نے صرف رپورٹس پر چھ ماہ بعد کی تاریخ دے دی! آپ کی بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ آپ کو حکومت کی مدد نہیں ملی۔ ملک منتخب عوامی نمائندوں کے بغیر کیسے چلے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ کیا ہم آپ کو کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا اندازہ غلط ہے، آپ الیکشن کرائیں؟ سجیل سواتی نے جواب دیا: ’نہیں، آپ یہ نہیں کہہ سکتے‘۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ ’ آپ اتنا بوجھ نہ اٹھائیں، آپ رستہ نہیں ڈھونڈ سکتے تو ہم آپ کو رستہ ڈھونڈ کر دیں گے۔ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ دو بار انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر چکی ہے۔ جب آئین میں کسی معاملے کے اوپر مخصوص ہدایات نہ ہوں پھرعدالت راستہ دکھا سکتی ہے یہ آئینی معاملہ ہے۔ آئین بنیادی حقوق کو خاص اہمیت دیتا ہے، باقی سب کچھ اسی سے مشروط ہے، بنیادی حقوق آئین کا بنیادی جزو ہیں۔ صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا؟
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پھر جمہوریت خطرے میں ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلحہ نہ ہو، چھوٹے موٹے جھگڑے تو ہوتے رہتے ہیں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت کے اس حکم پر بھی کچھ نہیں کیا، آپ نے کہا کہ سرکار کہہ رہی ہے کہ 6 ماہ کا وقت چاہیے۔ حکومت سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا یہ وقت کم ہو سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ فریقین سیاسی درجہ حرارت کم کریں، محاذ آرائی ہوتی ہے تو دیگر اداروں کو درمیان میں آنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماعت کا مطلب آئین پرعمل درآمد ہے، انتخاب کے بغیر جمہوریت کا حصول ناممکن ہے۔ وزارت داخلہ و دفاع بتائے کہ انتخاب میں معاونت کے لیے کتنا وقت چاہیے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہوئے تو خیبرپختونخوا کی نگران حکومت کے وکیل نے دلائل شروع کیے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا، کیا آپ نے گورنر سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کو کہا؟ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے جواب دیا ’ یہ ہمارا کام نہیں۔ ہم الیکشن کمیشن کی ہر قسم کی مدد کے لیے تیار ہیں۔
بعدازاں کیس کی مزید سماعت کل بروزجمعرات صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔













