امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو انتہائی متنازعہ عدالتی اصلاحات کے ساتھ پیش رفت جاری رکھنے سے متنبہ کیا ہے، جس نے کئی مہینوں جاری بدامنی کو جنم دیا ہے۔
امریکی صدر کے اس تبصرے پر اپنے رد عمل میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ غیر ملکی دباؤ کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتے۔
منگل کے روز بائیڈن کے تبصرے اس وقت سامنے آئے جب نیتن یاہو پر مخالفین کی طرف سے الزام لگایا جا رہا تھا کہ وہ اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کی کوشش میں اسرائیلی جمہوریت پر چڑھ دوڑے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں اسرائیل بھر میں زندگی مفلوج کردینے والے احتجاج اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے ریاست شمالی کیرولائنا کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیل کے بہت سے مضبوط حامیوں کی طرح وہ بھی بہت فکر مند ہیں۔ ’وہ اس سمت مزید نہیں جاسکتے اور یہ میں واضح کرچکا ہوں۔‘
بائیڈن نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کسی حقیقی سمجھوتہ پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ ’لیکن یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔‘ بائیڈن نے مزید کہا کہ وہ اسرائیلی رہنما کو کم از کم قریب مدت میں تو وائٹ ہاؤس مدعو کرنے پر غور نہیں کر رہے۔
بعد میں واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران، صدر بائیڈن نے نیتن یاہو کی انتظامیہ سے متنازعہ عدالتی اصلاحات کے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس اقدام سے کنارہ کشی اختیار کرلی جائے گی۔
دوسری جانب صدر جو بائیڈن کے ان تبصروں کے جواب میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں اسرائیل کو ایک خودمختار ملک گردانتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اپنے فیصلے اپنے عوام کی مرضی سے کرتا ہے نہ کہ بیرون ملک، بشمول بہترین دوستوں، کے دباؤ کی بنیاد پر ۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ان کی حکومت وسیع البنیاد اتفاق رائے کے ذریعہ اصلاحات متعارف کرانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ’میں صدر بائیڈن کو 40 سال سے جانتا ہوں اور میں اسرائیل کے لیے ان کی دیرینہ وابستگی کو سراہتا ہوں۔‘
وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کا اتحاد اٹوٹ ہے جو دونوں کے مابین رونما اختلافات پر ہمیشہ قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
گذشتہ روز اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے بھی وزیر اعظم نیتن یاہو سمیت حکمران اتحاد سے مجوزہ عدالتی اصلاحات کے منصوبے کو ’اسرائیلی عوام کے اتحاد اور ذمہ داری کی خاطر‘ روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ریاستی سربراہ کی حیثیت سے سیاسی معاملات سے پرہیز کرنیوالے صدر آئزک کی یہ اپیل ایک نوعیت کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے، جو عدالتی اصلاحات سے متعلق تجاویز اور وزیر دفاع کی برطرفی کے بعد اسرائیل بھر میں ہونے والے مظاہروں کی ایک ڈرامائی رات کے بعد سامنے آیا ہے۔
نیتن یاہو کی جانب سے اپنے متنازعہ عدالتی اصلاحات کے منصوبے کو چیلنج کرنے پر اپنے وزیر دفاع کو برطرف کرنے کے بعد اسرائیل بھر کے شہروں میں ہزاروں مظاہرین بے ساختہ احتجاج کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
برطرف وزیر دفاع یوو گیلنٹ حکمران لکوڈ پارٹی کے پہلے سینئر رکن تھے جنہوں نے اصلاحات کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس نوعیت کی سیاسی تقسیم اسرائیلی فوج کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔