حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق پاکستان اور پی ٹی آئی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ 9 مئی کا سانحہ ہو، فارن فنڈنگ ہو یا سائفر کا جھوٹا بیانیہ، پی ٹی آئی کے ملک دشمن اقدامات ثبوتوں کے ساتھ واضح ہوچکے ہیں۔
وی نیوز نے قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا طریقہ کار کیا ہے؟
سینئیر قانون دان ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ حکومت نہیں سپریم کورٹ کرتی ہے اور وہ ریاست اور ملک مخالف کارروائیاں ثابت ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:حکومت کا پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور عمران خان پر آرٹیکل 6 کے تحت ریفرنس لانے کا فیصلہ
جی ایم چوہدری نے کہا کہ اب چونکہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اب حکومت کو ریفرنس سپریم کورٹ بھیجنا ہو گا اور پی ٹی آئی کی ریاست مخالف اور ملک مخالف کارروائیوں کے ثبوت سپریم کورٹ میں جمع کرانا ہوں گے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ پی ٹی آئی کو جواب جمع کرانے کا موقع دے گی اور جائزہ لے گی کہ پی ٹی آئی اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کیا ثبوت پیش کرتی ہے۔
سینئیر قانون دان نے کہا کہ سپریم کورٹ اس ریفرنس پر سماعت مکمل کرنے اور دونوں فریقین کی جانب سے پیش کیے گئے ثبوتوں کی روشنی میں فیصلہ دے گی کہ آیا اس پارٹی پر پابندی عائد ہوگی یا نہیں۔
مزید پڑھیں:گرفتار پی ٹی آئی رہنما صنم جاوید کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کرنے کا حکم
ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے کہا کہ ماضی میں ملک اور ریاست دشمن کارروائیوں کے باعث نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی گئی تاہم وہی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے دوبارہ سامنے آ گئی، حال ہی میں اس جماعت کے سربراہ ایمل ولی نے بھارت کے میچ جیتنے پر ’جے ہند‘ کا نعرہ لگایا لیکن اس جماعت پر پابندی کی کسی نے بات نہیں کی۔
سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہونے کے بعد الیکشن کمیشن اس جماعت کے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو ڈی نوٹیفائی کردیتا ہے اور ان ارکان کی اسمبلی رکنیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔