حالیہ عدالتی فیصلوں کے بعد مجھے پنجابی کی ایک مشہور فلم یکے والی (تانگے والی) یاد آگئی۔ 1957 کی اس پنجابی فلم میں ایک مشہور کردار تھا ماما۔ جو ہر جگہ اپنی عدالت لگائے پھرتا تھا۔ کسی کا تنازع ہو مامے کی چلتی پھرتی عدالت پہنچ جاتی تھی یہ اور بات ہے اس کے فیصلوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ گاؤں میں ایک عورت نے بھٹی لگائی ہوتی ہے، جس کی زمین پر اس عورت کی بھٹی تھی وہ ماما جی سے فیصلہ کرنے کو کہتا ہے کہ اس عورت نے قبضہ کیا ہوا ہے اس سے کہیں یہ ادھر سے بھٹی ہٹائے۔ ماما جی فیصلہ دے دیتے ہیں کہ بھٹی ہٹا دی جائے۔
اگلے دن وہ عورت ماما جی کو روک لیتی ہے کہ میرا ذریعہ معاش یہی بھٹی تھی آپ نے یہ ہٹانے کا کہہ دیا؟ اب میں کہاں سے اپنے بچوں کا پیٹ پالوں؟ ماما جی فیصلہ دیتے ہیں کہ بھٹی پھر سے لگادی جائے۔ اس سے اگلے دن زمین کا مالک پھر ماما جی کو روک لیتا ہے۔ کہ اس عورت نے پھر بھٹی لگا دی ہے اس سے ہٹوائیں۔ ماما جی بھر ہٹوا دیتے ہیں۔ تو کسی نے ماما جی سے کہا یہ کیسا قانون ہے آپ کا ماما جی، ایک دن بھٹی ہٹانے کا اور دوسرے دن لگانے کا کہہ دیتے ہو؟ تو ماما جی نے فوراً کہا ’یہی تو مامے دا قانون ہے کہ بھٹی ہٹائی جاؤ، بھٹی لگائی جاؤ، ہٹائی جاؤ اور پھر لگائی جاؤ‘۔
ہماری عدلیہ کے فیصلے بھی کچھ اسی طرح کے ہیں، کبھی ایک کام کو غلط قرار دیتے ہیں تو پھر کچھ عرصے بعد اسی کو جائز کہہ دیتے ہیں۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں بھی کچھ ایسے ہی سوالات جنم لیتے ہیں جس سے ’مامے دے قانون‘ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ ان سوالات کے جوابات تو نہ جانے ملتے ہیں یا نہیں لیکن ایک بات کا یقین ہوگیا ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر اب تک اس ملک میں رائج مامے کا قانون ہی ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ موجودہ فیصلے میں آخر ایسی کیا بات ہوئی ہے کہ مجھے ماما دا قانون والا واقعہ یاد آگیا؟ ویسے مجھے تو مامے کا قانون ہوش سنبھالنے کے بعد ہی سمجھ آگیا لیکن اگر ہم موجودہ مخصوص نشستوں والے فیصلے کی بات کریں تو اس میں بہرحال ایسے کچھ نکات ہیں جو کہ وضاحت طلب ہیں۔
پہلا نکتہ جو کہ وضاحت طلب ہے وہ یہ ہے کہ فل کورٹ کے اس فیصلے میں 8 ججز نے جو اکثریتی فیصلہ دیا ہے اس میں عدالت نے قرار دیا کہ اس فیصلے کا اطلاق مئی سے آگے ہوگا۔ یعنی پی ٹی آئی کے حصے کی جو مخصوص نشستیں پہلے دوسری جماعتوں کو دی گئی تھیں وہ 13 مئی سے غیر آئینی تصور کی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن نے یہ مخصوص نشستیں فروری اور مارچ میں دوسری جماعتوں میں بانٹی تھیں۔ ان نشستوں کو دوسری جماعتوں میں بانٹنے کے بعد سینیٹ کے انتخابات بھی ہوئے اور سب سے اہم صدارتی انتخاب بھی ہوا جس میں ان نشستوں والے اراکین نے بھی ووٹ ڈالا جو اب پی ٹی آئی کو دی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے وہ سیٹیں غیر آئینی طور پر دی تھیں تو یہ کام پہلے دن سے ہی غیر آئینی ڈیکلئیر ہونا چاہیے نا کہ 13 مئی سے۔ کیا عدلیہ نے ایسا صرف صدارتی انتخابات اور سینیٹ الیکشن کو ’پروٹیکٹ‘ کرنے کے لیے کیا؟ اگر کوئی کام غیر آئینی ہے تو وہ پہلے دن سے ہی غیر آئینی ہونا چاہیے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے 2017 میں ایک فیصلہ دیا کہ کوئی بھی نااہل شخص کسی پارٹی کا عہدیدار نہیں رہ سکتا۔ یہ دراصل سابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے سیاسی قائدین کا راستہ روکنے کے لیے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 میں قانون متعارف کرایا تھا، لیکن اس کو بعد میں جمہوری حکومت نے repeal کردیا تھا۔ جسٹس ثاقب نثار نے اس کے باوجود نواز شریف کو پانامہ کیس میں نااہلی کی بنیاد پر پارٹی صدارت کا عہدہ رکھنے سے بھی نااہل قرار دے دیا۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف کے دستخط سے جن پارٹی اراکین کو سینیٹ ٹکٹ جاری کیے گئے تھے ان سب کو آزاد ڈیکلیئر کردیا گیا۔
اب مخصوص نشستوں کے فیصلے میں پی ٹی آئی کے وہ اراکین جو آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے تھے ان کو کہا گیا ہے کہ عوام نے آپ کو پی ٹی آئی کے مینڈیٹ پر ووٹ دیا ہے۔ اس لیے 15 دنوں میں پارٹی سرٹیفیکیٹ جمع کروا کر پی ٹی آئی اراکین پارلیمنٹ بن جائیں۔ حالانکہ آئین کے تحت آزاد اراکین کو کسی بھی پارٹی میں شمولیت کے لیے 3 دن دیے جاتے ہیں۔
6 سال پہلے ایک پارٹی کے نامزد کردہ منتخب اراکین کو فیصلہ دے کر آزاد ڈیکلئیر کردیا اور اب آزاد منتخب ہونے والوں کو پارٹی اراکین قرار دینے کی ہدایات جاری کردی۔ مطلب ماما جی کے قانون کی طرح کبھی کسی پارٹی کے نامزد کردہ رکن کو آزاد اور کبھی کسی آزاد رکن کو پارٹی کا نامزد کردہ منتخب نمائندہ قرار دیتے رہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اگر ہم نے ترقی یافتہ قوموں کی دوڑ میں شامل ہونا ہے تو پھر مملکت خداد داد میں آئین پاکستان کے ہوتے ہوئے ماما جی کے قانون کی کوئی گنجائش نہیں۔
اسی فیصلے پر حکومتی اتحاد اور بعض آئینی و قانونی ماہرین نے بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کردی ہے۔ گوکہ فیصلے میں تبدیلی کے امکانات کم ہی لگتے ہیں لیکن ایک قانونی ضرورت بہرحال پوری کی جارہی ہے تاکہ عدلیہ کو یہ پیغام چلا جائے کہ اس فیصلے سے حکومت بالکل اتفاق نہیں کرتی۔
مکمل انصاف کی فراہمی کا نظریہ استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا شاید اس امید کے ساتھ کہ پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے سے شاید ملک میں سیاسی استحکام آجائے، لیکن اس فیصلے کے الٹے اثرات سامنے آرہے ہیں۔ اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت اتحاد کو یہ یقین ہوچکا ہے کہ عدالتوں سے تحریک انصاف کو ہی صرف انصاف مل رہا ہے۔ اسی مایوسی کی وجہ سے انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تحریک انصاف پر سرے سے ہی پابندی لگا دی جائے اور اس سلسلے میں وفاقی وزیراطلاعات نے گزشتہ روز باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے اعلان کردیا ہے کہ بس اب بہت ہوگیا۔ تحریک انصاف اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، اس لیے اس پر پابندی کے لیے سپریم کورٹ میں ایک ریفرینس دائر کیا جائے گا۔ گوکہ اس کا نتیجہ بھی صفر ہی ہوگا لیکن اس سے حکومت کے اندر بے چینی واضح ہورہی ہے۔ پاکستانی سیاست پر کالے بادل منڈلا رہے ہیں اور مستقبل قریب میں کوئی بھونچال آتا نظر آرہا ہے جبکہ ہماری عدالتیں ابھی تک ’مامے دا قانون‘ سے ہی کام چلا رہی ہیں۔