ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بازگشت نمایاں ہوتی جارہی ہے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بعد تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور قانون دان حامد علی خان نے بھی ملک میں آئینی بریک ڈاؤن کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اپنے غیر آئینی اقدامات سے ملک کو ایک ’آئینی بریک ڈاؤن‘ سے دوچار کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
جیونیوز سے گفتگو میں حامد علی خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدر آمد نہ ہونے کی صورت میں سارا آئینی نظام تباہی کے در پہ ہوگا، کیونکہ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی میلٹ ڈاؤن کا خطرہ ہے، حکومت بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے: وزیر دفاع خواجہ آصف
حامد خان نے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تعیناتی کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے حکومتی بدنیتی پر مبنی اقدام سے تعبیر کیا، ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ایڈ ہاک ججز کو غلط فیصلے کرنے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان بار کونسل میں شامل بعض شخصیات کو تنقید کا نشانہ بنایا، جو بقول ان کے اسٹیبلشمنٹ کی لائن کو فروغ دے رہے ہیں لہذا وہ وکیلوں کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ملک میں آئینی بحران اور آئینی بریک ڈاؤن کے خطرے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اقتدار چھن جانے کے بعد پی ٹی آئی پاکستان کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔
خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ اکتوبر میں سپریم کورٹ میں انتخابات کی درخواست بھی دائر کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، جس پر انتخابات کو کالعدم قراردینے کی سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا، عدلیہ دیگر مقدمات بھی ایسے ہی سنے، گوہر خان
وزیر دفاع نے کہا کہ ملک میں آئینی ’میلٹ ڈاؤن‘ کا خطرہ ہے، کریڈٹ ریٹنگ کمپنی فچ کی حکومت کے خاتمے سے متعلق بات میں وزن ہے، ٹیکنوکریٹ حکومت میں شامل ہونے کے لیے لوگ تیار بیٹھے ہیں، لیکن ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جایا جاسکتا ہے۔
خواجہ آصف کے مطابق ملک میں دہشتگردی بھی جاری ہے، اس وقت غیر یقینی ماحول ضرور ہے، لیکن ان حالات کے ذمہ دار صرف سیاستدان نہیں، عدلیہ بھی ہے، ان کے مطابق پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان پیپلز پارٹی سمیت اتحادیوں سے مشاورت کے بعد کیا جانا چاہیے تھا۔