سیاحت کسی بھی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور کشمیر جیسی ریاست جہاں کوئی صنعت ہے نہ میدانی علاقہ، اور نہ ہی روزگار کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ ہے۔ یہاں لے دے کے سیاحت ہی وہ واحد شعبہ بچتا ہے جس پر اس ریاست کی کثیر آبادی کی معیشت کا دارومدار ہے۔ آزاد کشمیر میں سیاحت ایک عرصے سے جاری و ساری ہے اور لوگ اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں لیکن مظفرآباد ڈوپژن کے ضلع جہلم ویلی کی تحصیل وادی لیپہ کے لوگوں کے لیے سیاحت ایک راز تھا جو کچھ ہی عرصے قبل منکشف ہوا۔ جدید دور میں رہتے ہوئے بھی ان کے راستوں کی دشواری ان کی پسماندگی کو ظاہر کر دیتی تھی۔ یہ کہنا بجا ہے کہ یہاں سیاحت کی عمر بہت مختصر ہے۔ وادی لیپہ چوں کہ ماضی میں گولہ باری کی زد میں رہی اور یہاں کے باشندوں نے بہت زیادہ جانی و مالی نقصان بھی اٹھایا اس لیے وادی میں امن کی صورتِ حال کے پیشِ نظر سیاح اس وادی کا رُخ کرنے سے باز رہے۔
دوسرا مسئلہ سڑک کا تھا۔ ضلع جہلم ویلی ہٹیاں بالا سے لے کر ریشیاں تک تو سڑک پکی تھی لیکن اس سے آگے کچی سڑک کھنڈرات کا سا منظر پیش کر رہی تھی جس کی وجہ سے سیاحوں کا وادی کی جانب آنا مشکل تھا۔ 2021 میں ریشیاں بازار سے براستہ شیڑ گلی ٹاپ تا موجی، انٹلیاں سڑک پکی ہوئی تو سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ 2021 کے بعد یہاں سیاحوں کی باقاعدہ آمد شروع ہوئی جس سے وادی میں چہل پہل بڑھنے لگی۔ اگر چہ یہاں کے لوگ سیاحتی کلچر سے ناواقف تھے لیکن اپنی روایات، اقدار اور قدیمی ثقافت کے پیش نظر لوگوں نے جس قدر مثبت رویوں کو جنم دیا وہ لائقِ صد تحسین تھے۔ سیاحوں کے اچھے تاثرات، لوگوں کے اخلاق و اقدار کی تعریفیں اور نیچر کے ساتھ ان کی وابستگی نے سیاحت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
وادی لیپہ کی خوب صورتی اس کے سر سبز کھیت، ہری بھری فصلیں، سر سبز پہاڑ اور گھنے جنگلات کی بدولت ہے۔ وادی لیپہ پورے کشمیر میں غالباً منفرد جگہ ہے جہاں سُرخ چاول پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس وادی کی ثقافت کا حصہ ہیں۔ ان چاولوں کے کھیت بڑی تعداد میں وادی کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ وادی کے جو گاؤں کھیتوں کے ساتھ آباد ہیں وہ کھیتوں کے کناروں پر اس طرح سے آباد کیے گئے ہیں تاکہ چاولوں کی فصل کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور وادی کی خوب صورتی بھی قائم رہے۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت تھی۔ لوگ ان کھیتوں سے کافی حد تک سال بھر کا غلہ پیدا کر لیتے جس سے ان کا گزر بسر ہوتا۔ اگر کسی انسان کی زمین چاول یا مکئی کی فصل کے بغیر رہ جائے یا وہ جان بوجھ کر اسے چھوڑ دے تو یہ ثقافتی اعتبار سے عیب سمجھا جاتا اور اس انسان کو سال بھر یہ طعنہ سننے کو ملتا کہ آپ پرکھوں کے نام پر دھبہ ہو۔ اس لیے تہذیبی اعتبار سے تو زراعت سے وابستگی ضروری تھی لیکن اس میں غیرت کا عنصر بھی شامل ہوتا جاتا۔ اخروٹ وادی لیپہ کی بہترین سوغات ہے اور وادی کے تقریباً 60 فیصد لوگ اخروٹ کی گیری کا کاروبار کر کے اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرتے ہیں۔ اخروٹ کے درختوں کی وافر تعداد بھی وادی کی خوب صورتی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وادی میں سیب، خوبانی، ناشپاتی، آلوبخارا، آڑو، اور چیری کے درخت بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان درختوں سے پیدا ہونے والا پھل لوگ ذاتی استعمال کے لیے رکھتے ہیں۔
ان درختوں کی خوب صورتی بھی سیاحت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سیاحت جس خطے، قصبے یا علاقے میں پروان چڑھے، وہاں بہت سی چیزیں ساتھ لے کے آتی ہے۔ سیاحت کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے مقامی سطح پر لوگوں کے رہن سہن اور ان کی ترجیحات میں کافی حد تک تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ لوگوں کی زمین کے ساتھ جو وابستگی تھی وہ کم ہو گئی۔ زراعت جو کہ بہت عرصے تک ذریعہ معاش رہا، اس سے کھنچاؤ اور دوری کی وجہ سے نہ صرف مقامی معیشت متاثر ہو رہی ہے بلکہ اس بے گانگی کا وادی کی خوب صورتی پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ لوگ کھیتوں چاول کی فصل کی بہ جائے عالی شان گھر، گیسٹ ہاؤس، اور دکانیں تعمیر کرنے لگے ہیں جس سے ہریالی ختم ہو رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے سیاحتی رجحان کے سبب لوگوں نے پیسے کمانے کے نت نئے طریقے اختراع لیے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی روایات کو کافی حد تک نقصان پہنچا ہے۔
نوجوان نسل اپنی روایتی ثقافت، زراعت اور زمینوں سے بے زار نظر آتی ہے۔ دنیا زرعی اصلاحات کر کے مقامی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے نئے نئے آئیڈیاز لے کر آ رہی ہے اور یہاں زراعت کو ختم کر کے تعمیرات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ سیاحت کے فروغ سے پہلے سیاحتی کلچر کو فروغ دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔
یہ کام محکمہ سیاحت کا تھا کہ لوگوں کی رہنمائی کرے کہ زرعی زمینوں کی بقا ہی سیاحت کی بقا ہے۔ اور اگر کسی نے گیسٹ ہاؤس، ہوٹل، مارکیٹ وغیرہ بنانی بھی ہے تو ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جائے جہاں وادی کی خوب صورتی متاثر نہ ہو اور کھیتوں کی ہریالی بھی قائم رہے۔ چوں کہ وادی لیپہ میں سیاحت نئی نئی ہے اس لیے لوگوں کو یہ اندازہ نہیں کہ یہ سرسبز کھیتوں پر آر سی سی عمارات تعمیر کرنا کتنا بڑا نقصان ہے۔ لوگوں میں بڑھتی ہوئی حرص وقتی فائدہ تو پہنچائے گی لیکن یہ زیادہ انڈوں کے لیے مرغی ذبح کرنے والا عمل ہے۔ اس کے منفی اثرات دیر پا ہوں گے جو آنے والی نسل کے لیے پریشانی کا باعث بنیں گے۔ یہ بات باور کروانا ضروری ہے کہ خوب صورت کھیت، گھنے جنگل اور سرسبز درخت ہی سیاحوں کی دل چسپی کا سبب بنتے ہیں اور جب یہ ہی ختم ہو گئے تو کون سیاح اس وادی کا رخ کرے گا؟
حکومتی سطح پر سیاحتی اعتبار سے نوخیز وادی ” وادی لیپہ ” کی خوب صورتی کی بقا کے لیے کوئی پالیسی ترتیب نہیں دی گئی۔ اس لیے یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ وادی لیپہ میں پچھلے دو سال سے سیاحت جس طرح فروغ پا رہی ہے اور لوگوں کی ترجیحات جس طرح تبدیل ہو رہی ہیں شنید ہے کہ یہ غفلت وادی کی خوب صورتی کو ختم نہ کر دے۔ ویسے بھی حسن ازلی نہیں، ہر حسن اپنے عروج کے بعد ڈھل جاتا ہے۔