پی ٹی آئی سیکریٹریٹ پر چھاپے کے دوران گرفتاریاں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اہم سوالات اٹھا دیے

منگل 23 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی سیکریٹریٹ پر چھاپے کے دوران حراست میں لیے گئے کارکنوں کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ثبوت کے بغیر کسی بھی شخص کو کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر کل میں سڑک پر جارہا ہوں تو پولیس مجھے بھی اٹھا کر لے جائے گی؟

یہ بھی پڑھیں اسلام آباد: پی ٹی آئی کا مرکزی دفتر ایک بار پھر سیل کردیا گیا

دوران سماعت ڈی آئی جی آپریشنز، ڈائریکٹر سائبر کرائمز ایف آئی اے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال نے موقف اختیار کیاکہ ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا ہے۔ مقدمے میں نامزد لوگ گرفتار ہیں، باقی سب کو ذاتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست یہ تھی کہ پولیس اور ایف آئی اے نے کارکنوں کو اغوا کیا، اِس مقدمہ میں 10 مرد اور 2 خواتین شامل ہیں، کیا آپ کسی ثبوت کے بغیر کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں؟

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیاکہ کیا پی ٹی آئی سیکریٹریٹ میں بیٹھے تمام لوگوں کو گرفتار کیا جانا لازم تھا؟ کیا اُس دفتر میں موجود ہونا کوئی جرم ہے؟

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے خیر کی توقع نہیں، ترجمان پی ٹی آئی

انہوں نے کہاکہ اگر علی بخاری ایڈووکیٹ وہاں موجود ہوتے تو انہیں بھی گرفتار کرلیا جاتا؟۔

اس موقع پر علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ پارٹی سیکریٹریٹ سے واٹر ڈسپنسر بھی اٹھا کرلے گئے، جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ پانی پینا تھا کیا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے 32 لوگوں کو اٹھا لیا، کیا وہ سب آپ کو مطلوب تھے، آپ نے کسی کو گرفتار کرنا ہے تو شک کی بنیاد پر گرفتار کرنا ہے، صرف وہاں موجودگی کی بنیاد پر کیسے گرفتار کرلیا؟

انہوں نے مزید کہاکہ اگر گرفتاری نہیں ڈالی تو 32 لوگوں کو 10 گھنٹے کیسے وہاں رکھا؟ کیا یہ اغوا نہیں ہے۔ عدالت کے دروازے بند کروا دوں او آپ کو باہر نہ جانے دوں تو کیا یہ اغوا نہیں؟

یہ بھی پڑھیں متنازع پوسٹ کا معاملہ: پی ٹی آئی نے ایف آئی اے طلبی کے نوٹسز اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیے

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیاکہ حبسِ بےجا کی درخواست غیرموثر ہوگئی ہے نمٹا دی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا نہیں یہ درخواست ابھی غیر موثر نہیں ہوئی۔

انہوں نے مزید کہاکہ گرفتاری تفتیشی افسر کی خواہش پر نہیں کی جاسکتی، کوئی وجہ ہونی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp