وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن التوا ایک سیاسی سوال ہے جسے ہائیکورٹ کی زیر التوا کارروائی میں حل ہونا چاہیے تاہم سپریم کورٹ کے سربراہ اس ضمن میں اختلافِ رائے کو نظر انداز کرکے معاملہ کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ بار، پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کا مطالبہ ہے کہ سیاسی بخار ٹھںڈا کیا جائے۔ ’سپریم کورٹ میں اختلافی بات سننا اور اجتماعی سوچ کو رستہ دینا چاہیے۔ آئینی راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
وزیر قانون کے مطابق قوم امید کرتی تھی کہ چیف جسٹس صاحب فل کورٹ میٹنگ میں یہ معاملہ لیجاتے اور پھر سماعت کا آغاز کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان بار کونسل سمیت اٹارنی جنرل نے بھی اس ضمن میں فل کورٹ کی استدعا کی۔
وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے اپنی صوابدید پر تین رکنی بینچ کے ساتھ کارروائی کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی چیف جسٹس اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے پیش رفت کریں گے۔
’اس ملک کو آگے بڑھانے کے لیے تمام اداروں کا فرض ہے کہ اجتماعی سوچ کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے بیٹھیں۔۔ اقلیتی فیصلے مسلط کرنے سے یہ بحران مزید سنگین ہوگا۔‘
’ملک آئینی بحران سے دوچار ہے۔ پارلیمنٹ میں اس ضمن میں قانون سازی بھی ہوچکی ہے۔ آدھی سپریم کورٹ سمجھتی ہے کہ یہ معاملہ فل کورٹ کو سننا چاہیے۔۔ ہم ابھی امید رکھتے ہیں کہ ان معاملات پر چیف جسٹس غورکریں گے۔
وزیر قانون کے مطابق سیاسی انتشار کے پیش نظر جس طرح چیف جسٹس کے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کا کہا ہے اسی اصول کے تحت سپریم کورٹ میں اختلافِ رائے کو جگہ دیتے ہوئے اجتماعی سوچ کو راستہ دیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ وزیر اعظم نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے ساتھ سماعت جاری رکھنے کے مضمرات پر غور کیا جائے گا۔