ڈی آئی خان میں بڑھتی بدامنی: وزیراعلیٰ کا ضلع نو گو ایریا بن گیا؟

جمعرات 1 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے وزارت عالیہ  کا حلف اٹھانے کے بعد صوبے میں دہشتگردی کا خاتمہ کرکے اسے امن کا گہوارہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان دعووں کے برخلاف صوبے کے دیگر حصے تو دور کی بات خود وزیر اعلیٰ کے آبائی ضلعے ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) میں دہشتگردی، بد امنی اور اغوا کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق رواں سال دہشتگردی میں سب سے زیادہ جانی نقصان ڈی آئی خان میں ہوا جبکہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے والے نامعلوم ہی رہتے ہیں۔

25  مئی کو نامعلوم دہشتگردوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے آبائی ضلع ڈی آئی خان میں مسافر بس پر حملہ کیا، ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بنایا اور مسافروں کو اتار کر بس کو آگ لگا دی تھی۔

پولیس ذرائع کے مطابق 3 ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باجود حملے میں ملوث دہشتگرد اب تک نامعلوم ہی ہیں اور کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق واقعہ ڈی آئی خان سے تقریباً 55 کلو میٹر دور تحصیل درابن اور درازندہ کے سرحدی علاقے میں پیش آیا  تھا جو دہشتگردوں کا گڑھ ہے اور وہاں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔

وزیر اعلیٰ، گورنر اور آئی جی پولیس کا ضلع نشانے پر

ضلع ڈی آئی صرف علی امین گنڈاپور ہی نہیں بلکہ گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی اور آئی جی پولیس اختر حیات گنڈاپور کا بھی آبائی ضلع ہے۔ صوبے کے حکمرانوں اور پولیس چیف کا آبائی ضلع گزشتہ کچھ عرصے سے دہشتگردوں کے نشانے پر ہے اور پرتشدد اور دہشتگردی واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق بس پر حملہ پہلا یا آخری واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں جبکہ زیادہ تر ہدف سکیورٹی ادارے اور پولیس ہوتی ہے۔

یو این مشن پر فائرنگ

ڈی آئی خان میں دہشتگردی کا تازہ ترین واقعہ یو این ٹیم کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔ ڈی آئی خان پولیس کے مطابق منگل کے روز ٹانک سے ملحقہ علاقے میں یو این کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس میں عملے کے ارکان محفوظ رہے تاہم نامعلوم دہشتگرد واقعے کے بعد فرار ہو گئے اور کوئی پکڑا نہیں گیا۔

سب سے زیادہ ہلاکتیں ڈی آئی خان میں ہوئیں، رپورٹ

صوبے میں دہشتگردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سی ٹی ڈی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق رواں سال دہشتگردی کے واقعات میں سب سے زیادہ ہلاکتیں وزیر اعلیٰ، گورنر اور آئی جی کے آبائی ضلعے ڈی آئی خان میں ہوئی ہیں۔

سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق رواں سال صوبے میں فائرنگ، دھماکے اور دہشتگردی و دیگر واقعات میں پولیس، سیکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت 563 افراد جاں بحق و زخمی ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق رواں برس دہشتگردی کے سب سے زیادہ واقعات ڈی آئی خان میں پیش آئے جن میں 56 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ 75 زخمی ہوئے۔

ڈی آئی خان میں ہر ہفتے 2 افراد دہشتگردی کے باعث زندگی ہار جاتے ہیں۔

سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں رواں سال کے ابتدائی 7 ماہ میں ڈی آئی خان میں دہشتگردی سے پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 56 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔

رپورٹ کے مطابق ضلعے میں ہر ہفتےاوسطاً 2 افراد مارے جاتے ہیں جو دیگر اضلاع کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ان واقعات میں فائرنگ، دھماکے اور حملے شامل ہیں۔

اس دوران سب سے پولیس کو نشانہ بنایا گیا اور 22 پولیس اہلکار موت کے گھاٹ اتار دیے گئے جبکہ 22 اہلکار زخمی ہوئے۔

سی ٹی ڈی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 8 سیکیورٹی اہلکار بھی دہشتگردوں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ 17 عام شہری بھی دہشتگردی کا نشانہ بنے۔

دیگر اضلاع میں دہشتگردی

سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق پشاور میں دہشتگردی سے 14 افراد جاں بحق ہوئے جن میں جن 2 سیکیورٹی اور 11 پولیس اہلکار شامل ہیں۔

قبائلی ضلع خیبر پولیس سمیت 11 افراد دہشتگردوں کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہوئے ہیں جبکہ بنوں میں 35 زندگیاں ختم ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق چترال اپر و لوئر، ایبٹ آباد اور نوشہرہ میں دہشتگردی کے واقعات رپورٹ نہیں ہوئے۔

ڈی آئی خان سمیت جنوبی اضلاع آگ کی لپیٹ میں ہیں جہاں شام کے بعد نامعلوم افراد کا راج شروع ہوجاتا ہے۔

پشاور میں نجی ٹی وی کی بیورو چیف فرزانہ علی کا تعلق بھی ضلع ڈی آئی خان سے ہے اور اپنے آبائی علاقے میں سیکیورٹی صورت حال پر وہ کافی فکر مند دکھائی دیتی ہیں۔

فرزانہ علی نے وی نیوز کو بتایا ڈی آئی خان سمیت جنوبی اضلاع اس وقت دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں۔

سرکٹی لاشیں اور دہشتگردوں کے غول

فرزانہ علی نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے ایف سی اور پولیس اہلکاروں کو اغوا کیا گیا اور پھر ان کی سر کٹی لاشیں ملیں جس سے علاقے میں تشویش کی لہر دوڑگئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں کہ رات کو نامعلوم غول نکلتے اور گشت کرتے ہیں اور ویڈیوز بھی بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی افراد اس صورتحال پر پریشان ہیں۔

فرزانہ نے بتایا کہ شام ہوتے ہی ان لوگوں کا راج شروع ہو جاتا ہے لیکن حکام اسے تسلیم کرنے یا اس پر بات کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

ڈی آئی خان طالبان کا گڑھ؟

ڈی آئی خان اور دیگر جنوبی اضلاع میں دہشتگردی کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں لیکن صوبائی حکومت اس پر کھل کر بات نہیں کرتی۔

اس حوالے سے آئی جی اختر حیات گنڈاپور سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے وی نیوز کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ڈی آئی خان میں اہم عہدے پر فائز رکھنے والے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈی آئی خان گزشتہ کچھ عرصے سے دہشتگردوں کے نشانے پر ہے۔ ان کے مطابق کولاچی سمیت کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں طالبان کی واضح موجودگی دیکھی جاسکتی ہے اور بظاہر وہی گروپ اس طرح کے واقعات میں ملوث ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ گروپس اغوا برائے تاوان میں بھی ملوث ہے جبکہ یہ گروہ پولیس اور دیگر اداروں کو نشانہ بنا کر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

افسر نے بتایا کہ افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں کی نسبت ڈی آئی خان میں دہشتگردی زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ وہاں موجود مقامی طالبان کمانڈرز اور گروپس ہیں جن کی اپنے مضبوط ٹھکانوں کی وجہ سے وہاں پوری گرفت ہے۔

سرکاری افسر نے بتایا کہ آرمی پولیس اور سی ٹی ڈی مشترکہ آپریشن کرتی ہے اور کئی اہم دہشتگردوں کا خاتمہ بھی کیا گیا ہے لیکن انہیں مکمل طور پر ان علاقوں سے ختم نہیں کیا جاسکا جو حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجود حالات میں ذمے دار ادارے بھی الرٹ ہیں اور ٹارگیٹڈ آپریشن کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp