روک سکو تو روک لو، بھارتی باکسر نکہت زریں کی نظریں اب اولمپکس پر

جمعہ 31 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارت کے شہر نظام آباد کی ایک نٹ کھٹ لڑکی باکسنگ سیکھنے کا شوق پورا کرکے جب گھر پہنچی تو اس کی ناک سے خون جاری تھا جس پر اس کی ماں رو پڑی اور چلا کر بولی ’ارے اس طرح تو تمہارا چہرہ خراب ہوجائے گا پھر تم سے شادی کون کرے گا‘۔

ماں کی ممتا اپنی جگہ لیکن اس لڑکی نے ہمت نہ ہاری اور اس روز کے ٹھیک 10 برس بعد آج وہ میری کوم کے بعد بھارت کی دوسری خاتون ہے جس نے مسلسل دو سال خواتین کی عالمی باکسنگ چیمپیئن شپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا ہے جبکہ وہ مقابلہ جیتنے کے اعتبار سے وہ ملک کی پانچویں باکسر ہے۔

الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ستائیس سالہ نکہت زریں نے سنہ 2022 میں جب ترکی میں منعقد ہونے والی عالمی باکسنگ چیمپیئن شپ پہلی مرتبہ جیتی تھی تو وہ ایک غیر سیڈڈ کھلاڑی کے لیے ایک زبردست فتح تھی۔ انہوں نے دوسری مرتبہ اس سال نئی دہلی میں دوسری مرتبہ وہ ٹائٹل جیتا اور اب ان کی نظریں اگلے سال پیرس میں ہونے والے اولمپک گیمز پر جمی ہیں۔

نظام آباد (حیدرآباد دکن کا جڑواں شہر) میں پلنے بڑھنے والی نکہت کہتی ہیں کہ وہ ایک چھوٹے سے شہر کی ہیں اور ورلڈ چیمپیئن شپ میں دو بار گولڈ میڈل جیتنا ان کے لیے ایک خواب پورا ہونے جیسا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ مسلسل دو مرتبہ گولڈ میڈل جیتنے پر وہ اپنے ہموطنوں کے لیے باعث فخر ہیں۔ انہوں نے فائنل میں ویتنام کی نگوین تھی ٹام کو شکست ٹائٹل دوسری مرتبہ اپنے نام کیا۔

 

کیا لڑکیاں باکسنگ کر سکتی ہیں؟

زرین کے والدین کا کہنا ہے کہ جب وہ چھوٹی بچی تھی تو اسے باکسنگ سے محبت ہو گئی تھی۔ لڑکوں کو باکسنگ کرتے دیکھ کر اس کا پہلا سوال ہوتا: ’کیا لڑکیاں باکس کر سکتی ہیں؟‘

’کیوں نہیں؟‘ یہ جواب نکہت کے پہلے باکسنگ کوچ محمد صمصام الدین نے انہیں دیا تھا۔

باہتر سالہ کوچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے محسوس کیا تھا کہ جیسے نکہت کو باکسنگ سے پہلی نظر میں ہی پیار ہوگیا تھا۔

نکہت، محمد جمیل احمد اور پروین سلطانہ کی چار بیٹیوں میں سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان کے والد جمیل خود بھی ایک ریاستی سطح کے فٹ بال کھلاڑی ہیں اور سعودی عرب میں سیلز مین کے طور پر بھی کام کرچکے ہیں۔

نکہت نے سنہ 2011 میں ترکی میں منعقدہ جونیئر ورلڈ باکسنگ چیمپئن شپ بھی جیتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد انہیں نظام آباد میں تربیت دیتے تھے جس کے باعث انہوں نے ایتھلیٹکس میں اچھی کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مختلف کھیلوں کے ایک مقابلے کے دوران ایک باکسنگ ایونٹ ہوا جہاں ٹورنامنٹ میں ایک بھی لڑکی نہیں تھی جس پر انہوں نے والد سے استفسار کیا کہ کیا لڑکیاں باکسنگ نہیں کر سکتیں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ بالکل کرسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکیوں کو پڑھنا چاہیے اور پھر شادی کرلینی چاہیے لیکن ان کے والد نے ایک اسپورٹس مین ہونے کے ناطے انہیں باکسنگ میں حصہ لینے کی ترغیب دی البتہ ان کی والدہ اس بات سے تھوڑی ڈری ہوئی تھیں۔

ایتھلیٹکس سے لے کر باکسنگ تک:

جمیل احمد نے بتایا کہ نظام آباد شہر کے ونائک نگر کے علاقے نسیم کالونی میں ان کے چھوٹے سے گھر میں نکہت ہمیشہ بھاگتی دوڑتی اور شرارتیں کرتی رہتی تھی۔

وہ اسے ایک ٹریننگ سینٹر لے گئے تاکہ بے چین سی اس 9 سالہ بچی کو مصروف رکھا جا سکے اور پھر اسی شرارتی بچی نے ایتھلیٹکس میں اپنے کمالات سے سب کو حیران کر دیا۔

انہوں نے بتایا کہ نکہت نے 100 میٹر، 200 میٹر، لمبی چھلانگ اور اونچی چھلانگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا پھر ریاستی ایتھلیٹکس ایونٹ میں حصہ لیا اور پھر سے ایک انڈور باکسنگ جم نظر آگیا جس پر اس نے باکسنگ اپنانے کی ٹھان لی۔

یہ وہ جگہ تھی جہاں صمصام الدین نے باکسرز کو تربیت دی تھی۔ نکہت نے دستانے پہننے سے پہلے مرد باکسروں کو ایکشن میں دیکھتے ہوئے دن گزارے۔ ان کے کوچ کا کہنا ہے کہ ایک بار جب اس نے باکسنگ کے دستانے پہن لیے تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

نکہت سنہ 2009 میں ایک دبلی پتلی 13 سال کی لڑکی تھی۔ جب اس نے ریاست پنجاب میں منعقدہ قومی کھیلوں کے لیے اپنا نام درج کروایا تو بہت سے لوگوں نے پوچھا کہ بھلا یہ ننھی اور دھان پان سی لڑکی ہریانہ اور پنجاب ریاستوں کی 18 سالہ طویل القامت اور تگڑی لڑکیوں کے ساتھ کیسے باکسنگ کر سکتی ہے۔ لیکن وہ سخت جان تھی اور اس نے ثابت کیا کہ اس میں بہت دم ہے۔
سنہ 2010 میں اس نے سب جونیئر نیشنل چیمپئن شپ میں گولڈ اور بہترین باکسر کا ایوارڈ جیتا تھا اور اس کے اگلے سال ترکی کے شہر انطالیہ میں منعقدہ جونیئر ورلڈ باکسنگ چیمپیئن شپ میں 15 سالہ لڑکی نے تاریخ رقم کی جب اس نے 50 کلوگرام فلائی ویٹ کیٹیگری میں طلائی تمغہ جیتا۔

جمیل احمد اس بات پر قائل ہو گئے تھے کہ ان کی بیٹی کا عالمی چیمپئن بننا مقدر ہے لہٰذا وہ سنہ 2014 میں نظام آباد سے حیدرآباد منتقل ہو گئے جس نے کھیل کے کئی تابناک ستارے پیدا کیے ہیں جن میں کرکٹر اظہرالدین، ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا، بیڈمنٹن کے پی وی سندھو اور سائنا نہوال، شوٹنگ میں گگن نارنگ اورٹیبل ٹینس کے میدان میں سریجا اکولا بھی شامل ہیں۔بھارت کے قومی باکسنگ کوچ ایمانی چرنجیوی کا کہنا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ باکسر جیتنے کے لیے پیدا ہوئی ہے اور کچھ کر کے دکھائے گی۔انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑے ہونے پر جمیل احمد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹریننگ سینٹغر میں نکہت کو اسکوٹر پر لاتے، جم کر کھڑے رہتے اور اس کی خوراک کا خیال رکھتے۔

اولمپک تمغہ اگلا خواب:

نکہت کا کہنا ہے کہ وہ آنے والے دنوں کی مشکلات سے واقف ہیں اور جانتی ہیں کہ انہیں سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک میں اولمپک گولڈ جیتنے کا اپنا خواب پورا نہیں کرتیں چین سے نہیں بیٹھیں گی اور کڑی محنت جاری رکھیں گی۔وہ کہتی ہیں کہ ان کا اگلا ہدف ستمبر میں ہونے والے ایشین گیمز ہیں اور پھر وہ تمغہ جیتنے اور پیرس اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے کی بھرپور کوشش کریں گی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ وہ اپنے ملک کے لیے اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والی پہلی خاتون باکسر بن جائیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp