گلگت بلستان میں متاثرین ایئرپورٹ نے 75 سال گزر جانے کے بعد بھی معاوضہ جات نہ ملنے پر احتجاجی دھرنا جاری رکھنے اور زمینوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پیر کو وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے متاثرین ایئرپورٹ نے کہا ہے کہ 1948 میں بننے والے ائیرپورٹ کے متاثرین کی تیسری نسل بھی پروان چڑھ چکی ہے لیکن حکومت کے وعدے ایفا نہیں ہوئے اور معاوضہ جات ادا نہیں کیے گئے۔
گلگت بلتستان کا پہلا ہوائی اڈہ 1948 کو بنا تھا، اس وقت حکومت پاکستان نے 657 کنال زمین یہاں ہوائی اڈے کے قیام کے لیے اپنی تحویل میں لی تھی۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت نے لوگوں کو زرخیز زمینوں، گھروں اور پھل دار درختوں کی مد میں صرف 80 روپے ادا کیےاور متاثرین کی بحالی، گھروں کی تعمیر اور مذکورہ زمین کے بدلے زمین دینے کا فیصلہ کیا لیکن تاحال تیسری نسل پروان چڑھنے کے باوجود معاوضہ جات ادا نہیں کیے گئے جس کے خلاف متاثرین نے ائیرپورٹ کے احاطے میں دھرنا دے رکھا ہے۔
متاثرین ائیرپورٹ میں سے ظہور احمد نے وی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، ہم دھرنا کسی صورت مؤخر کرنے کو تیار نہیں جب تک کہ ہمارے معاوضہ جات ہمیں نہیں دیے جاتے، اگر حکومت نے ہمیں ہمارے معاوضہ جات ادا نہ کیے تو ہم اپنی زمینوں پر دوبارہ قبضہ کر لیں گے۔
گلگت بلتستان کے سینیئر صحافی اقبال عاصی بھی ائیرپورٹ کے متاثرین میں شامل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آج ہمیں دھرنا دیے ہوئے 6 روز ہو گئے ہیں، ہمارے دھرنے میں سیاسی، سماجی لوگوں نے شرکت کی اور داد رسی کی، مگر سرکاری حکام میں سے کسی نے بھی متاثرین کے پاس آنے کی زحمت نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہمارے زمینوں پر قبضہ کیے ہوئے ہماری تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے، معاوضہ جات دینے کی بجائے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، ہمیں اپنے حق کے حصول کے لیے مجبوراً روڈ پر نکلنا پڑا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ متاثرین نے حکومت اور اعلیٰ عدالتوں تک سب کے دروازے کھٹکھٹائے ہیں مگر کہیں سے بھی ہمیں ہمارا حق نہیں دیا گیا، اب ہم اپنے حق کے لیے سڑکوں پر اگرچہ نکلے ہیں تو پھر جب تک معاوضہ جات نہیں ملتے یہاں سے واپس نہیں جائیں گے۔
اقبال عاصی نے مزید بتایا کہ متاثرین کے حق میں وفاقی محتسب کے 9 فیصلے اور صدر مملکت کی طرف سے 2 فیصلوں اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی کے حکم نامے کے باوجود صوبائی حکومت اور وزارت امور کشمیر کے کرپٹ افسروں نے تمام فیصلوں کو جوتے کی نوک پہ رکھا۔
اگر متاثرین ایئرپورٹ کے ساتھ حکومت کا رویہ نہ بدلا اور معاوضہ جات کے حوالے سے یہی روش برقرار رہی تو متاثرین کے صبر کا پیمانہ لبریز بھی ہو سکتا ہے۔
ظہور احمد نے مزید بتایا کہ تمام فورمز سے ہم بری ہوچکے ہیں، عدلیہ سمیت دیگر 12 فیصلے ہمارے حق میں آ چکے ہیں، صدر پاکستان کا فیصلہ ہمارے حق میں آیا اور اب ہمارا مسئلہ کشمیر افیئرز کے پاس رکا ہوا ہے کیونکہ 5 سالوں سے یہ کیس کشمیر افیئرز میں چل رہا ہے۔ کشمیر افیئرز ہمارا حق دینے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے حالانکہ تمام سیاسی جماعتوں نے ہمارے حق میں بات کی ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی وزیر داخلہ شمس لون نے بھی ائیرپورٹ متاثرین کے معاوضہ جات کے حوالے سے میٹنگ میں یقین دہانی کرائی تھی کہ محرم کے ایام میں ہی صوبائی حکومت متاثرین ائیرپورٹ کے لیے معاوضہ جات کے لیے موجودہ قیمتوں کے مطابق سمری بناکر ارسال کرے گی اور ساتھ ہی وزیر اعلیٰ کے احکامات کے تحت متاثرین ائیرپورٹ کے وفد کو اپنے ساتھ کشمیر افیئرز اور دیگر فورمز پر بھی لے جائے گی اور یہ کہ متاثرین ائیر پورٹ کو فوری طور پر ان کا حق دیا جائے گا۔
ظہور احمد نے مزید کہا کہ کمیٹیوں پہ کمیٹیاں بن گئیں مگر ہمارے معاوضہ جات ہمیں نہیں ملے، اس لیے مجبوراً سڑکوں پر نکلے ہیں اور اس بار ہمیں ممبر اسمبلی نے بھی یقین دہانی کرائی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر معاوضہ جات نہ دیے گئے تو ائیرپورٹ کی دیواریں توڑ کر ہم اپنی زمینوں پر دوبارہ قبضہ کر لیں گے۔