بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے علاقے مرین ڈرائیو پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مطالبات کے حق میں احتجاج دسویں روز بھی جاری ہے، حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے درمیان دو مذاکراتی نشستیں ہونے کے باوجود معاملات حل نہ ہوسکے، تاہم معمولات زندگی جزوی بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
معمولات زندگی بحال ہونے پر کچھ افراد نے کاروباری مراکز کھول دیے ہیں، جبکہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی بحال ہونا شروع ہوگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا ختم، گوادر میں زندگی معمول پر آنا شروع
ایک جانب جہاں حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے درمیان ٹھن گئی ہے وہیں گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ان کی نام نہاد قیادت کا دشمن سے گٹھ جوڑ ہے، گوادر میں چلے جائیں، وہاں آپ کو حکومت کی رٹ ملے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کو کہاکہ پُرامن احتجاج آپ کا حق ہے، لیکن سڑکیں بلاک نہ کریں، لیکن آپ نے دیکھا کہ انہوں نے آگ لگائی۔
فوجی ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں مزید کہا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی نام نہاد قیادت دہشتگرد تنظیموں اور جرائم مافیا کی ایک پراکسی ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی دہشتگردوں کی پراکسی کے سوا کچھ نہیں۔
’ادارے بلوچ عوام کی طاقت اور پر امن جدوجہد سے خوفزدہ ہیں‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے جاری اعلامیے میں کہا ہے کہ ادارے بلوچ عوام کی طاقت اور پر امن جدوجہد سے خوفزدہ ہیں۔ سیاسی اور انسانی حقوق کی تحریک کے خلاف ریاستی ادارے کا پریس کانفرنس کرنا بذات خود اس بات کا اعتراف ہے کہ بلوچستان میں عوام کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں مخالفین کا ایجنڈا ناکام، چین کے اعلیٰ سطح کے وفد کا گوادر کا دورہ
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہاکہ ہم تمام مظلوم اقوام کی تحریکوں کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت، آئین اور قانون وجود نہیں رکھتے بلکہ یہاں شروع دن سے اداروں کی حکمرانی میں بدترین آمریت اور فاشزم قائم ہے۔