پاکستانی افواج نے دنیا بھر میں اپنی شجاعت کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی، پاک افواج میں شہادت کا ایک ایسا جذبہ موجود ہے جس نے بڑی بڑی داستانیں رقم کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کا یوم شہادت، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس کا خراج عقیدت
یہ ایک ایسے بہادر سپوت کی داستان ہے جس نے لکشمی پور مشرقی پاکستان میں دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے اور وطن کی عظمت اور حفاظت کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کیا۔
بروقت قوتِ فیصلہ، بھرپور جوابی وار اور اللہ پر ایمان نے میجر طفیل محمد شہید کو یہ اعزاز بخشا کہ دُشمن کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روکا بلکہ واپس لوٹنے پر بھی مجبور کر دیا۔
آپ نے لکشمی پور مشرقی پاکستان میں جرات و بہادری کی تاریخ رقم کرتے ہوئے بھارتی چوکیوں کا صفایا کیا اور گھمسان کی لڑائی کے دوران ملک کی آن، شان اور حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
ہندوستانی سرحد سے متصل لکشمی پور کا علاقہ مشرقی پاکستان میں ہندوستانی اشیا کی اسمگلنگ کے لیے استعمال ہورہا تھا ، سرحد پر غیر قانونی حرکت کو روکنے کے لیے ایسٹ پاکستان رائفلز(EPR)کو تعینات کیا گیا۔
اگست1958میں تمام بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے ہندوستانی فوج نے اسمگلرز کو تحفظ دینے کے لیے لکشمی پور پر قبضہ کرلیا، میجر طفیل کو یہ علاقہ وا گزار کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: کیپٹن کرنل شیرخان شہید دھرتی کا بہادر سپوت جو ہمیشہ ہردل میں زندہ رہے گا
7 اگست کی رات میجر طفیل نے ایک غیر متوقع سمت سے حملہ کر کے دشمن کو حیران کر دیا، حملے کی قیادت کے دوران میجر طفیل دشمن کی مشین گن فائر کی زد میں آگئے، زخموں سے بکثرت خون بہنے کے باوجود آپ نے دستی بموں کا حملہ جاری رکھا اور دشمن کی مشین گن کو خاموش کرا دیا۔
اسی اثنا میں آپ کی نظر ایک ہندوستانی افسر میجر دیو براہمن پر پڑی جو ایک پاکستان جوان پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا، بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ کھڑے نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے رینگتے ہوئے آگے بڑھ کر میجر دیو کو اپنی ٹانگوں سے الجھا کر گرا لیا اور اسٹیل ہیلمٹ سے اُس پر کاری ضرب لگائی۔
یہ بھی پڑھیں: عظمت شہدا کنونشن: وزیراعظم شہباز شریف فرط جذبات سے آبدیدہ ہو گئے
تاہم جنگی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے آپ نے اپنے ساتھیوں کو اُسے ہلاک کرنے کی بجائے جنگی قیدی بنانے کا حکم دیا، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے سے قبل میجر طفیل دشمن کو لکشمی پورسے بے دخل کرنے میں کامیاب ہو چُکے تھے۔
میجر طفیل محمد شہید اپنا آج وطنِ عزیز کے کل پر قربان کر کے آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن گئے۔
یہ بھی پڑھیں: میجر طفیل محمد شہید کے یوم شہادت پر پاک فوج کا خراج عقیدت
اس لڑائی میں بھارتی اپنے پیچھے چار لاشیں اور تین قیدی چھوڑکر فرار ہو گئے اور صبح کے سورج نے اس چوکی پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا۔
مادر وطن کی خاطر بیرونی دشمنوں کے خلاف جنگ لڑنے والے میجر طفیل محمد شہید آج دہشت گردوں اور اندرونی چیلنجز سے نبرد آزما پاک فوج کے جری سپوتوں کے لئے بہادری کی روشن مثال ہیں۔ آج پوری قوم ان کی بہادری اور شجاعت کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 19 ستمبر 1965: بھارت کی جگ ہنسائی کا موجب کیسے بنا؟
واضح رہے نشانِ حیدر سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو ایسے افسروں اور جوانوں کو ملتا ہے جنہوں نے بہادری و شجاعت کےغیرمعمولی کارنامے سرانجام دیے ہوں۔
میجر طفیل کا خاندان اور تعلیم
میجر طفیل محمد شہید کے والد کا نام چودھری موج الدین تھا اور آپ کے خاندان والے موضع کھرکاں ضلع ہوشیار پور (بھارت) کے رہائشی تھے۔
1913 میں ہوشیار پور سے ضلع جالندھر کے ایک گاؤں میں منتقل ہوگئے، جہاں پر 22 جولائی 1914 کو طفیل محمد نے جنم لیا۔
یہ بھی پڑھیں: 1971 کی جنگ کے ہیرو لیفٹیننٹ سالار بیگ شہید کی داستانِ شجاعت
طفیل محمد نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج جالندھر میں داخلہ لے لیا اوراسی کالج سے ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا۔
1943 ء میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور 1947ء میں جب آپ میجر کے عہدے تک پہنچ چکے تھے تو مسلح فورسز میں ایک امتیازی کیرئیر کے بعد 1958 میں کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے مشرقی پاکستان تعینات ہوئے۔