تصور کریں آپ ایک پانڈہ ہیں۔ مست لائف گزار رہے ہیں۔ درخت کی ٹہنی پر بیٹھے بیٹھے سو رہے ہیں۔ کھا رہے ہیں، آرام کر رہے ہیں۔ سب کچھ بہترین ہے۔ خدمت گار ہیں، سسٹم ہے، سیکیورٹی ہے۔ آپ کی صحت کا خیال رکھنے کو سٹاف ہے۔ جہاں آپ کو رکھا گیا ہے اس کا ماحول بھی آپ کی طبعیت کے مطابق ہے۔
اک عام چینی کی زندگی اس سب سے ذرا مختلف ہے، وہ محنت بہت کرتا ہے۔ سہولت، سکون، امن اس کو پانڈے والا ہی ملا ہوا ہے۔ محنت وہ اس لیے کرتا ہے کہ اسے بتایا گیا ہے کہ کام کرو، محنت کرو، امیر ہو جاؤ گے۔
ایسے چینیوں کے ہم آئرن برادر ہیں۔ اہم دوروں پر مشترکہ بیان میں شہد سے میٹھی، ہمالیہ سے اونچی، سمندروں سے گہری دوستی کی مثال دی جاتی ہے۔ شہباز شریف کے دورہ چین کے بعد اسٹیٹمنٹ میں جب پاکستان کو ہائی ایسٹ پرائرٹی کی بجائے پرائرٹی لکھا گیا تو دنیا نے اسے بھی نوٹ کیا۔
ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ میں ایک رپورٹ کی سرخی تھی کہ بیجنگ پاکستان سے مایوس ہورہا ہے۔ اس کی وجہ پاکستان میں سیاسی استحکام نہ ہونا، امن و امان کی صورتحال بتائی گئی تھی۔ اسی رپورٹ میں اعتراف تھا کہ پاکستان چینی باشندوں کی سیکیورٹی بڑھاتا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود خدشہ ظاہر کیا گیا کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا سکیل کم ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ جاننا دلچسپ بھی ہے اور اہم بھی۔ چینی پاکستان کے حالات سے ایڈجسٹ نہیں کر پا رہے ہیں۔ لمحہ لمحہ بدلتی صورتحال کے وہ عادی ہی نہیں۔
آپ کو چینی نیوز سائٹ کی ہیڈ لائن بتائی ہے۔ جاپانیوں کی سن لیں۔ جاپانی نیوز سائٹ ایشیا نکئے نے پاکستان سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے جانے پر بات کی ہے۔ فرانس کی ٹوٹل انرجی نے پاکستان میں اپنا 50 فیصد بزنس سویٹزرلینڈ کے گنوور گروپ کو بیچ دیا ہے۔ پاکستان میں ٹوٹل کے نیٹ ورک میں 800 سے زیادہ فیول پمپ ہیں۔ ٹوٹل نے 26.5 ملین ڈالر مالیت کے شیئر فروخت کیے ہیں۔ اس سے پہلے شیل انرجی بھی اپنے 77.42 فیصد حصص سعودی کمپنی وافی انرجی کو فروخت کرنے کا معاہدہ کر چکی ہے۔
انرجی کمپنیوں کے علاوہ ٹیلی نار گروپ بھی اپنا سیٹ اپ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کو 38 کروڑ 80 لاکھ ڈالر میں فروخت کر چکا ہے۔ فارماسیوٹیکل جائنٹس فائزر اور فرانس کی سنوفی بھی ایسی ہی ملٹی نیشنل ہیں جنہوں نے اپنا بزنس پاکستان سے لپیٹا ہے۔ بزنس لپیٹنے کی وجہ ٹیلی نار کے سی ای او سگوی بریک کچھ یوں بتاتے ہیں ’اگر کوئی سرمایہ لگاکر اپنا منافع واپس ہی نہیں لے جا سکتا، تو وہ اک دن واپس چلا ہی جائے گا۔‘
پاکستان سے ملٹی نیشنل کے جانے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر کم ہیں۔ کمپنیوں کو پاکستان سے منافع منتقل کرنے میں سرکاری رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ رولز ریگولیشن بھی سرمایہ کار کے نکلنے کی ایک وجہ ہیں۔ فرانس کی ٹوٹل کی روانگی کی ایک وجہ پاکستان میں عدم استحکام اور شدت پسندی بھی ہے۔
فرانس اور ٹوٹل کے نام سے آپ کا دھیان کس طرف گیا؟ نام نہ لیں، دل میں بھی مت سوچیں، روانگی کی وجہ صرف پالیسی نہیں ہے، صرف سیاسی عدم استحکام نہیں ہے، یہ کچھ بھی ہے۔
لیو جیان چھاؤ کیمونسٹ پارٹی آف چائنہ کی سنٹرل کمیٹی کے منسٹر ہیں۔ ان کی ذمہ داری انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ ہے۔ چین کی کیمونسٹ پارٹی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے براہ راست رابطے بھی رکھتی ہے۔ چینی منسٹر نے اسحاق ڈار کے ساتھ پاک چائنہ جائنٹ کنسلٹیٹو مکینزم کی مشترکہ صدارت کی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اجلاس میں شرکت کی۔
چین کا سفارتی انداز پردے کے پیچھے سرگرم رہنے کا ہے۔ چھاؤ نے پاکستان کے تین روزہ دورے میں اس روایتی انداز کے برعکس کھل کر بات کی ہے۔ اس سے چینی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔
پہلی بات سیاسی استحکام لانے اور ہونے کی کہی گئی ہے۔ دوسری بات سکیورٹی کے بارے میں کی گئی ہے۔ تیسرے نمبر پر کہا گیا ہے کہ چین سی پیک کا اپ گریڈڈ ورژن شروع کرنے کو تیار ہے۔ یعنی پہلی دو باتوں پر عمل کریں تو یہ تیسرا کام شروع ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے صدر شی کی بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ
“create a safe, stable and predictable business environment” that would “guarantee the safety of Chinese personnel and projects”.
پاکستان کا ایک مسئلہ دکھائی دینے والی ایسی پالیسیاں بنانا بھی ہے جن پر عمل ہوتا دکھائی بھی دے اور ممکن بھی ہو۔ جب گوادر میں دس دن تک دھرنا بیٹھا رہے، اسلام آباد میں جماعت اسلامی بجلی بلوں کے خلاف احتجاج کرے۔ دونوں باتوں کا تعلق چینی سرمایہ کاری سے ہو تو ہر سرمایہ کار کو غلط پیغام جاتا ہے کہ یہ پاکستان کا آئرن برادر ہے۔ وہ مشکل میں ہے تو کسی اور کے لیے کتنا امکان ہے۔ اس کے ساتھ امریکی ہاؤس کمیٹی میں ڈونلڈ لو کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری ہسٹری ہے اور امریکی فیوچر۔ اس سے سفارتی، سیاسی، معاشی نزاکتیں بھی سمجھ آتی ہیں۔
تحریر کی دم : آج کل نیٹ کا جو حال ہے، جس سے مرضی قسم چکا لیں وہ حوالدار بشیر کا نام لے گا۔ زیادہ نہیں تو اتنا تو کہہ ہی دے گا کہ بھا بشیر کام سیکھ رہا ہے۔ اس کے احترام میں نیٹ بہہ گیا ہے۔ اس نیٹ اس نئی فائر وال کے ساتھ ہم نے آئی ٹی سیکٹر سے پیسے کمانے ہیں، واقعی؟
انٹرنیٹ بحال کریں، سوشل میڈیا اوپن کریں، سائبر کورٹ اور پولیس قائم کریں، گرفتاریوں، قید کی بجائے جرمانوں کے ماڈل کو اختیار کریں۔ سب بہترین سیٹ ہو جائے گا۔ سر جی! کوئی اور آئیڈیا ڈھونڈیں، جب آپ عادی ہو چکے تھے، برداشت کر رہے تھے، تب فائر وال لگا دی اور بچہ پارٹی جو سو، سو، پچاس ڈالر کما رہی تھی اس سے بھی گئی۔ اور ہم سوچتے ہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں کیوں جا رہی ہیں اور آئرن برادر کیوں خفا ہے؟