‘ہاتھ سے لکھی شاعری ٹائپ کی گئی شاعری سے زیادہ حساس ہوتی ہے’

منگل 20 اگست 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہر مصنف کا تحریر کو منصۃ شہود پر لانے کا طریقہ کار مختلف ہے۔ کچھ تو اس جدید دور میں بھی کاغذ اور قلم کو ہی بہتر سمجھتے ہیں اور جدید سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ لیکن اب ایسے مصنف کم کم رہ گئے ہیں۔ کچھ مصنفین تو ٹائپ رائٹر کے زمانے میں اپنی تحریریں ہاتھ سے لکھنے کی بجائے براہ راست ٹائپ کرتے تھے۔ جیسے ہمارے ہاں منٹو کا ٹائپ رائٹر کافی مشہور ہوا۔ نئے دور میں ٹائپ رائٹر کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی، جس میں کاٹ چھانٹ بہت آسان ہو گئی ہے۔ اس میں تدوین بھی قلمی نسخوں اور ٹائپ رائٹر کی نسبت کافی آسان ہے۔

دنیا کے عظیم ادیبوں کے انٹریوز کے تراجم کے دوران میں نے کچھ ادیبوں کے طریقہ کار کو منفرد اوراس کے بارے میں ان کی آرا کو دلچسپ پایا۔ ممتاز ناول نگار حوزے ساراماگو کمپیوٹر کمپوزنگ کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے بارے میں ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ، ’’آخری کتاب جو میں نے پرانے ٹائپ رائٹر پر لکھی تھی وہ The History of the Siege of Lisbon تھی۔ سچ یہ ہے کہ مجھے کی بورڈ کو اپنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ میرا نہیں خیال کہ میں نے کسی چیز پر کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔ جیسا کہ بعض دفعہ کمپیوٹر کمپوزنگ سے اسلوب میں تبدیلی کے بارے میں کچھ لوگوں کی جانب سے کہا جاتا ہے، تومیرا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ اگر آج ٹائپ رائٹر استعمال کر رہا ہوتا تو وہی کرتا جو میں کمپیوٹر پر کررہا ہوں۔ اس میں فرق صرف یہ ہے کہ یہ صاف ہے، زیادہ آسان اور تیز۔ ہر چیز بہتر ہے۔ سو میری تحریر پراس کے کوئی برے اثرات نہیں پڑے۔ یہ کہنا ایسے ہی ہو گا کہ جیسے ہاتھ سے لکھتے ہوئے ٹائپ رائٹر پر منتقل ہونا اسلوب میں کوئی تبدیلی لاتا ہے۔ میرے خیال میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر کسی کا اپنا کوئی انداز یا اسلوب ہے تو وہ کس طرح ہاتھ کی بجائے کمپیوٹر پر لکھنے سے بدل جاتا ہے؟ تاہم میں کاغذ کے ساتھ ایک مضبوط ربط رکھتا ہوں، اور ایسا کرنا فطری ہے۔ میں جو بھی صفحہ مکمل کرتا ہوں اس کا پرنٹ لے لیتا ہوں۔ جب میں کسی کام کے اختتام تک پہنچ جاتا ہوں تو اس سب کو پڑھتا ہوں۔ عام طور پر اس موقع پر کچھ تبدیلیاں ہوتی ہیں۔‘‘

ممتاز ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے تخلیق کے لمحوں کو خوش کن قرار دیتے تھے اوران سے ایک بار پوچھا گیا کہ جب آپ ٹائپ رائٹر سے دور ہوتے ہیں توکیا جاری کام کو دماغ سے نکال دیتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا، ’’بالکل ایسا ہی ہے لیکن ایسا کرنے کا طریقہ ہے اور یہ طریقہ دریافت کیا گیا ہے۔‘‘

ممتاز جاپانی ادیب کازو ایشی گرو کمپیوٹر کے استعمال کے بارے میں کہتے ہیں، ’’میری دو میزیں ہیں۔ ایک لکھنے کا تختہ ہے اور دوسرے پر کمپیوٹر۔ یہ 1996 کا کمپیوٹر ہے اور اس کے ساتھ انٹرنیٹ نہیں لگا ہوا۔ میں ابتدائی مسودوں پر قلم سے کام کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے علاوہ کسی کے لیے قابل فہم نہ ہوں۔ رف مسودہ ایک بے ترتیبی کا شاہکار ہوتا ہے۔ میں اسلوب یا ربط کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ میں بس سب کچھ کاغذ پر اتارنا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے اچانک کوئی خیال سوجھے جو پچھلے کے ساتھ لگا نہ بھی کھاتا ہو تو بھی اسے فوراً لکھ لیتا ہوں۔ میں بعد میں ایک نوٹ بنا کر اس سب کو ترتیب دیتا ہوں۔ پھر اس میں سے پورا منصوبہ بناتا ہوں۔

معروف مصری مصنف نجیب محفوظ کاغذ پر لکھتےتھے اور ایک انٹرویو کے دوران بتاتے ہیں، ’’میرے مزاج کا حصہ نہیں کہ میں نوٹس سنبھال کر رکھوں۔ میں نے کسی لکھاری کے بارے میں نہیں سنا کہ اس نے اپنے آغاز کے ڈرافٹ سنبھال کر رکھے ہوں، مجھے اپنی کانٹ چھانٹ کے کام کو تلف کرنا پڑتا ہے۔ نہیں تو میرا گھر ردی سے بھر جائے، اس کے علاوہ یہ کہ میری لکھائی انتہائی خراب ہے۔‘‘

نوبیل انعام یافتہ شاعر اور سیاسی رہنما پابلو نیرودا نے ہاتھ سے لکھنے کے بارے میں بہت حیران کن اور انوکھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میرا ایکسیڈنٹ ہوا اور میری انگلی ٹوٹی اور میں کچھ ماہ تک ٹائپ رائٹر استعمال نہ کر سکا، تومیں نے نوجوانی کا پرانا روایتی طریقہ دوبارہ اپنا لیا۔ جب میری انگلی بہتر ہوئی اور میں دوبارہ ٹائپ کرنے کے قابل ہوا تومجھ پر یہ عیاں ہوا کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی شاعری زیادہ حساس تھی؛ اس کی پلاسٹک کی صورتیں آسانی سے تبدیل ہو تی ہیں۔ ٹائپ رائٹر نے شاعری سے میری گہری یگانگت کو جدا کر دیا اور میرا ہاتھ مجھے دوبارہ اس کے قریب لے آیا۔

ممتاز شاعر اور ڈرامہ نگار ڈیرک ایلٹن والکوٹ سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آپ کیسے لکھتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا، ’’مصنفین کے اپنے مختلف انداز، مختلف بنیادیں، حتیٰ کہ خالی کاغذ کے پاس بیٹھنے یا کھڑے ہونے کے جسمانی زاویے تک مختلف ہوتے ہیں۔ میں نے غور نہیں کیا کہ میری مشینیں کیسی ہیں۔ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ نظم ہونے لگی ہے، تو ٹائپ رائٹر یا کھڑکی کے باہر ٹریفک کے شور کے باوجود یا کچھ بھی ۔۔۔ آپ سب چیزوں سے پسپائی اختیار کرتے ہیں، یہ ایک پیچھے ہٹنے کا عمل ہے، ایک قسم کی خاموشی کے اندر جانے کاعمل، جو آ پ کے ارد گرد کو آپ سے کاٹ دیتی ہے۔ آپ جو کر رہے ہیں وہ دراصل آپ کی شناخت کی نہیں بلکہ آپ کی گمنامی کی تجدید ہے۔‘‘

ممتازناول نگار اور مضمون نگار ٹونی موریسن نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران ایک دلچسپ واقعہ سنایا، کہتی ہیں،’’حال ہی میں ایک مصنف سے بات ہو رہی تھی جس نے بتایا کہ وہ ہر بار لکھنے کی میز کی طرف جاتے ہوئے کچھ خاص کرتی ہیں۔ مجھے اس چیز کا نام یاد نہیں لیکن ان کی میز پر کچھ ایسا پڑا ہوتا ہے جسے وہ کی بورڈ کو ہاتھ لگانے سے پہلے چھوتی ہیں۔‘‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp