گلوکارہ نازیہ حسن، جس نے بھارتیوں کو اپنا دیوانہ بنائے رکھا

منگل 13 اگست 2024
author image

خرم سہیل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ تحریر ابتدائی طور پر گزشتہ برس شائع کی گئی تھی جسے آج نازیہ حسن کی برسی کے موقع پر وی نیوز کے قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔ 


زندگی کے نشیب و فراز دیکھنے والی ایسی گلوکارہ، جس کے تعاقب میں دنیائے موسیقی کی چمکتی روشنی اور ذاتی زندگی کے تاریک سائے، بیک وقت گامزن تھے۔

پاکستانی پوپ میوزک کی تاریخ میں، جو چند نام اب تک سنہری حروف میں درج ہوئے ہیں، ان میں سے ایک نام نازیہ حسن کا ہے، جنہوں نے اپنے بھائی زوہیب حسن کے اشتراک سے جدید گائیکی کی دنیا میں وہ جادو جگایا، جس کی گونج ایک زمانے کی یادداشت میں محفوظ ہے۔

پاکستان میں پوپ میوزک کی شروعات میں، جن پاکستانی گلوکاروں کو ملک گیر اور عالمی سطح پر توجہ ملی، اس منظرنامے میں ان دونوں بہن بھائیوں کا نام بھی سرِفہرست ہے، بالخصوص نازیہ حسن نے شہرت کی بلندیوں کو چُھولیا۔ پاکستان میں 80 اور 90 کی دہائی میں پوپ میوزک کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

پوری دنیا میں آج بھی ان کی آواز اورگائیکی کے لاتعداد مداح موجود ہیں، وہ ان سے محبت کرتے اور انہیں یاد کرتے ہیں اور ہم انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں کہ آج ان کا 58واں یوم پیدائش ہے۔

جنوبی ایشیا میں ‘پوپ میوزک کی ملکہ’ اور ’پاکستان کی سویٹ ہارٹ’ کے خطابات حاصل کرنے والی، اس باصلاحیت گلوکارہ کو ’گولڈن وائس’ اور ’پائینیرآف میوزک’ بھی کہا گیا۔ انہیں گائیکی کا فن پیدائشی طور پر ودیعت ہوا تھا۔ انہوں نے جب ہوش سنبھالا، تو اپنے آپ کو اس موسیقی سے وابستہ پایا، پھر وقت کے ساتھ ساتھ، اس رشتے کو گہرا کرتی چلی گئیں۔

نازیہ حسن کی پیدائش 3 اپریل 1965ء کی ہے جبکہ جائے مقام کراچی تھا اور یومِ وفات 13 اگست 2000ء کی ہے۔ لندن میں آپ کا انتقال ہوا۔ دونوں بہن بھائیوں کی جوڑی میں جتنے ریکارڈز پوری دنیا میں فروخت ہوئے، ان کی تعداد 65 ملین سے زائد ہے۔ جنوبی ایشیا کی پوپ میوزک کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد ریکارڈ ہے، جس کو پھر کبھی کوئی توڑ نہ سکا۔

نازیہ حسن صرف ایک گلوکارہ ہی نہیں بلکہ بہترین شاعرہ اور گیت نگار، وکیل اور سماجی کارکن بھی تھیں۔ انہوں نے رچمنڈ امریکی یونیورسٹی، لندن اور یونیورسٹی آف لندن سے قانون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔ وہ اقوامِ متحدہ سے وابستہ رہیں، امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی طرف سے خواتین کے بین الاقوامی لیڈرشپ پروگرام کی پیشکش ہوئی، جس پر وہ ناسازی طبیعت کی وجہ سے کام نہ کرسکیں، البتہ انہوں نے ابتدائی دور میں کچھ پروگراموں میں حصہ لیا اور سلامتی کونسل کے لیے بھی اپنی خدمات فراہم کیں۔ کینسر کی تشخیص کے ساتھ ہی ان کی صحت گرنے لگی اور وہ اپنی فعال زندگی سے دُور ہوتی چلی گئیں۔

ان کی پرورش کراچی اور لندن جیسے شہروں میں ہوئی۔ ان کے والد باصر حسن معروف پاکستانی تاجر اور والدہ منزہ باصر سماجی کارکن ہیں۔ زوہیب حسن کے علاوہ ان کی ایک اور بہن بھی ہے، جن کا نام زہرہ حسن ہے۔ نازیہ حسن کی شادی پاکستان کے معروف صنعت کار مرزا اشتیاق بیگ سے 1995ء میں ہوئی اور 2000ء میں، اپنی وفات سے 10 دن پہلے ان کی طلاق ہوگئی۔ ان کا ایک ہی بیٹا ہے، جس کا نام عریض حسن ہے۔

ان کے اہلِ خانہ نے ’نازیہ حسن فاؤنڈیشن’ بنائی ہے، جس کے تحت خدمتِ خلق کا کام کیا جاتا ہے۔ بے گھر بچوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے یہ تنظیم کوشاں ہے اور ’میک اے وش’ جیسی بین الاقوامی فلاحی تنظیم کو بھی نازیہ حسن پاکستان لے کر آئیں کیونکہ ان کو موسیقی کے بعد اگر کسی چیز میں بہت دلچسپی تھی، تو وہ خدمتِ خلق کا کام تھا۔

پاکستانی پوپ میوزک میں انگلستان اور ہندوستان کا کلیدی کردار

دونوں بہن بھائیوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم، پاکستان کے معروف موسیقار سہیل رعنا سے حاصل کی۔ نازیہ حسن نے 1975ء کو، 10 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ بچوں کے پروگرام ’کلیوں کی مالا’ میں شرکت کی۔ اس کے بعد پاکستان ٹیلی وژن سے ہی نشر ہونے والے بچوں کی موسیقی کے پروگرام ’سنگ سنگ چلتے رہنا’ میں دونوں بہن بھائی شامل ہوئے۔ اتنی مختلف آوازوں میں نازیہ حسن نے اپنے لیے ایک الگ سمت کا انتخاب کیا، وہ روایتی موسیقی کو اپنانے کے بجائے جدید موسیقی کی طرف راغب ہوئیں اور اپنے بھائی کے اشتراک سے اس راہ کو اختیار کرتے ہوئے کم عمری میں ہی شہرت سمیٹنا شروع کردی۔

موسیقی کی متعلقہ شخصیات کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی، بقول سہیل رعنا ’میں نے بہت آوازیں سنیں، لیکن یہ اپنی نوعیت کی مختلف آواز تھی۔ نازیہ نے طے کرلیا تھا کہ وہ اپنی جداگانہ راہ بنائے گی، اسی لیے وہ کسی دوسری گلوکارہ کے نقش قدم پر نہ چلی‘۔

نازیہ حسن کی زندگی میں کلیدی موڑ تب آتا ہے، جب ان کے لندن والے گھر میں معروف انڈین اداکارہ زینت امان آئیں۔ ان کی والدہ نے زینت امان کو بتایا کہ ان کے دونوں بچوں کی موسیقی میں دلچسپی ہے، پھر انہوں نے نازیہ سے گانا بھی سنا، جس کے بعد انہوں نے فیروز خان کی فلم ’قربانی’ کی گائیکی کے لیے نازیہ حسن کا نام تجویز کیا۔

اس سلسلے میں وہ لندن ہی میں مقیم ایک ہندوستانی موسیقار ’بدوآپایاہ’ سے ملیں، وہیں ان کا آڈیشن ہوا اور وہ اس ہندوستانی فلم ’قربانی’ کے ایک گیت کے لیے منتخب کرلی گئیں۔ نازیہ حسن کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ان کو بدو جیسا موسیقار مل گیا۔ وہ ایک جدید موسیقی کو سمجھنے والے موسیقار تھے، جنہوں نے نازیہ کی آواز کی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے گانے تخلیق کیے اور اس شاندار سفر کی ابتدا فلم ’قربانی’ کے گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے’ سے ہوئی۔

اس گیت نے نازیہ کو ایک دم سے شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا۔ ویسے یہ مشہورِ زمانہ گیت امریکی گلوکار ’لوراولس’ کے مقبول گیت ’یوول نیور فائنڈ’ سے کچھ متاثر دھن پر مبنی تھا، لیکن مقامی لب و لہجہ میں سامعین کے دل کو بھاگیا۔

نازیہ حسن 15 سال کی عمر میں جنوبی ایشیا کی جدید موسیقی کی اہم ترین آواز بن چکی تھیں۔ بھارتی فلم ‘قربانی’ کے گیت کی شاندار مقبولیت کی بنا پر، انہیں 1981ء میں بہترین گلوکارہ کے لیے، انڈین فلمی صنعت کا مقبول ترین ایوارڈ ’فلم فیئر’ بھی دیا گیا، جو بھارت میں کسی پاکستانی کو ملنے والا پہلا اعزاز تھا اور وہ فلم فیئر کی تاریخ میں سب سے کم عمر ایوارڈ وصول کرنے والی شخصیت بھی بن گئیں اور یہ ریکارڈ آج تک نہیں ٹوٹ سکا۔

بدو کے علاوہ اس فلم کے دوسرے موسیقاروں میں ‘کلیان جی، آنند جی’ تھے۔ انہوں نے اس مذکورہ فلم کے لیے دیگر گیت آشا بھوسلے، محمد رفیع اور دوسرے مشہور گلوکاروں سے گوائے تھے، مگر اس سال کا ایوارڈ نازیہ حسن کے حصے میں ہی آیا، جوانہوں نے ہندوستان کے عظیم فلم ساز راج کپور کے ہاتھوں وصول کیا۔

بالی وڈ میں کام کرتے ہوئے، ان کو کشور کمار جیسے گلوکار کے ساتھ بھی گانے کا موقع ملا، جن کے گیت بچپن میں سنتے ہوئے وہ بڑی ہوئی تھیں، اس لیے ایسے گلوکار کے ساتھ گانا، ان کے لیے ایک عظیم تجربہ تھا۔

پاکستانی گلوکارہ اور ہندوستانی نژاد برطانوی موسیقار کا اشتراک

نازیہ حسن اپنی شہرت کو مستقل طور پر قائم صرف اس لیے رکھ پائیں کیونکہ ان کی پشت پر بدو جیسا موسیقار تھا، جو نازیہ اور زوہیب کے لیے نت نئی دھنیں تخلیق کر رہا تھا۔

نازیہ کی آواز، جس کو موسیقی کی دنیا میں ‘نیزل وائس’ کہا جاتا ہے، یعنی ایسی آواز، جو حلق کے ساتھ ساتھ ناک سے بھی آئے۔ بدو اس ساخت کو سمجھ گئے تھے اور انہوں نے اسی آواز کے تناظر میں دھنیں ترتیب دیں۔

اس موسیقار نے صرف اس پاکستانی گلوکارہ کے لیے ہی یہ کام نہیں کیا بلکہ پوپ میوزک کے میڈیم میں، جاپانی گلوکارہ ’اکینا ناکاموری’ اور چینی گلوکارہ ’سمانتھا لام’ کے کیریئر کو بھی استحکام دیا، جس طرح وہ نازیہ حسن کے لیے کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے کئی ہالی وڈ کی فلموں کے ساؤنڈ ٹریکس بھی مرتب کیے تھے۔ نازیہ زوہیب کو ایسا موسیقار مل جانا، ان کی خوش نصیبی تھی۔ انہوں نے نازیہ اور زوہیب کو دنیائے موسیقی میں اپنی دھنوں سے امر کردیا۔

معروف ہندوستانی گلوکارہ ’علیشاہ چنائی’ کی آواز میں، انڈین پوپ میوزک کا سب سے مشہور گیت ’میڈ اِن انڈیا’ کی پیشکش بھی، بدو نے نازیہ کو ہی تھی، لیکن انہوں نے ایک پاکستانی گلوکارہ ہونے کے ناطے اس کو مسترد کردیا۔

موسیقار بدو نے جنید جمشید کے ساتھ بھی ایک البم ’نام’ پر کام کیا تھا، جس کے گیت شعیب منصور نے لکھے تھے۔ نازیہ اور زوہیب کے گیتوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان اور انگلستان کے ساتھ ساتھ ویسٹ انڈیز، روس اور لاطینی امریکی ممالک کے میوزک چارٹس پر جس طرح، نازیہ کی آواز اور بدو کے میوزک نے راج کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔

ہندوستانی فلموں میں بطور پلے بیک سنگراور دیگر جہتیں

نازیہ حسن نے بالی وڈ میں پلے بیک سنگر کے طور پر 80 کی دہائی سے فلم ’قربانی‘ سے آغاز کیا تھا۔ آپ نے اس کے بعد، جن فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا، ان میں اسٹار (1982)، دل والا (1986)، الزام (1986)، بلوان (1986)، ادھیرک (1986)، شیلا (1987) اور سایا (1989) شامل ہیں۔

پہلی 2 فلموں کے علاوہ تمام فلموں کی موسیقی بپی لہری نے دی جبکہ بہت بعد میں ان کی آواز کو 2 مزید فلموں میں شامل کیا گیا، جن میں اسٹوڈنٹ آف دی ایئر(2012) اور مس لَولی (2012) ہیں اور چند انگریزی ڈراموں میں بھی آواز شامل کی گئی، جن میں آر لَو لاسٹ فور ایور(1981)، گیٹ اے لٹل کلوزر(1982) سمیت ڈریمر ڈیوائن (1983) اور دین ہی کسڈ می (1988) میں بھی ان کی آواز شامل کی گئی تھی۔

عالمی شہرت یافتہ پانچ میوزک البم

عالمی موسیقی کی دنیا میں ‘ای ایم آئی’ پہلی میوزک کمپنی تھی، جس نے جنوب ایشیائی گلوکاروں کے ساتھ پہلی بار معاہدہ کیا۔ وہ گلوکار نازیہ اور زوہیب ہی تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ جنوبی ایشیا کے پہلے ایسے گلوکار تھے، جن کی میوزک ویڈیو میں ایرانی نژاد امریکی ‘کیتھی روز’ اور برطانوی نژاد امریکی ’ڈیوڈ روز’ نے کام کیا تھا۔ ان دونوں بہن بھائیوں کے 5 میوزک البم ریلیز ہوئے اور کئی لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوئی۔ ان البم کی ترتیب کچھ یوں ہے۔

  • ڈسکو دیوانے (1981)
  • بوم بوم (1982)
  • ینگ ترنگ (1984)
  • ہاٹ لائن (1987)
  • کیمرا کیمرا (1992)

نازیہ اور زوہیب کی پہلی البم ’ڈسکو دیوانے’ کے زیادہ تر گیتوں کی دھنیں بدو نے بنائی تھیں جبکہ ان کے علاوہ ارشد محمود اور زوہیب حسن نے بھی کچھ گیت کمپوز کیے تھے۔ اس البم میں جن شعرا کے کلام پر گیت کمپوز ہوئے، ان میں نازیہ زوہیب کی شاعری کے علاوہ، اردو کے معروف شاعر میرا جی اور نگار صہبائی کا کلام، انور خالد اور فاروق قیصر کی گیت نگاری تھی۔

یہ البم دنیا کے 14 ممالک میں ریلیز ہوا تھا، جن میں پاکستان، انڈیا، برازیل، روس، جنوبی افریقہ، فلپائن، ملائیشیا، انڈونیشیا، لاطینی امریکا، کینیڈا، برطانیہ، ویسٹ انڈیز اور امریکا شامل ہیں۔

دوسری البم ’بوم بوم’ بالی وڈ کی فلم ’اسٹار’ کے گیت تھے، جو اس فلم کے لیے کمپوز کیے گئے تھے۔ اس فلم کی کہانی اور گیت موسیقار بدو اور نازیہ زوہیب نے مل کر لکھے تھے۔

تیسری البم ’ینگ ترنگ’ کے موسیقار بھی بدو تھے۔ اس میں جن شاعروں کا کلام کمپوز کیا گیا، ان میں نازیہ اور زوہیب کی شاعری کے علاوہ امیت کھنہ اور صہبا اختر شامل تھے۔

چوتھی البم ’ہاٹ لائن’ کے میوزک پروڈیوسر بھی بدو تھے جبکہ نازیہ زوہیب کے ساتھ ساتھ صابر ظفر کے کلام کو البم کا حصہ بنایا گیا۔ اس البم کو بھی بے پناہ شہرت ملی۔ اس البم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں نازیہ اور زوہیب کی تیسری بہن زہرہ حسن نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا اور تینوں بہن بھائیوں نے مل کر گیت گائے۔ مشہورِ زمانہ گیت ’دوستی’ اسی البم کا گیت تھا۔

پانچویں البم ’کیمرا کیمرا’ میں نازیہ زوہیب کے لیے بدو کے علاوہ جن موسیقاروں نے گیت کمپوز کیے، ان میں ہندوستانی موسیقار بپی لہری، کینیڈین موسیقار گورڈن لگفوٹ اور پاکستانی موسیقار میاں یوسف صلاح الدین شامل ہیں۔ اس البم کی تھیم منشیات کے خلاف مہم پر مبنی بھی تھی اور یہ دونوں بہن بھائیوں کی آخری البم تھی، اس کے بعد دونوں نے اعلان کیا کہ مزید البم جاری نہیں کریں گے۔

عروج کی نئی منازل

نازیہ حسن نے انڈین فلمی صنعت کے معتبر ایوارڈ ’فلم فیئر’ کو کم عمری میں حاصل کیا، پھر انہیں پاکستان کا ایک معتبر ایوارڈ ’پرائڈ آف پرفارمنس’ دیا گیا۔ انہوں نے جنوبی کوریا کا معروف میوزک ایوارڈ ’گولڈن ڈسک’ ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس کے علاوہ پلاٹینیم اور ڈبل پلاٹینیم ایوارڈز بھی ملے۔

پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد پروگراموں میں ان سے انٹرویوز بھی کیے گئے اور انہوں نے بھی بطور میزبان کئی معروف شخصیات سے مکالمہ کیا۔ عالمی میڈیا سے بھی ان کی گفت و شنید کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا جبکہ انہوں نے معروف پاکستانی اخبارات و رسائل کو بھی انٹرویوز دیے۔ ان پر دستاویزی فلمیں بنائی گئیں اور ان کو پاکستانی کوک اسٹوڈیو میں ان کے بھائی زوہیب حسن نے نئی نسل کے گلوکاروں کے ساتھ مل کر خراج تحسین پیش کیا۔

نئی نسل کی مقبول گلوکارہ میشا شفیع نے بھی کوک اسٹوڈیو میں ان کا ایک گیت گاکر عقیدت کا نذرانہ ادا کیا۔ گوگل نے اپنے ڈوڈل پر نازیہ حسن کو پینٹ کیا، صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جن ممالک میں ان کے البم فروخت ہوتے رہے، گیت سنے جاتے رہے، ان تمام ممالک، جن میں آسڑیلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا سمیت دیگر ممالک شامل ہیں، وہاں بھی یہ خراج تحسین گوگل کی طرف سے پیش کیا گیا۔

رچمنڈ امریکی یونیورسٹی، لندن کی طرف سے ان کو بعد ازمرگ، ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی، جس کو ان کے بیٹے نے وصول کیا۔ انہوں نے خدمتِ خلق کے لیے اپنی کوششیں کیں اور انہیں اقوامِ متحدہ کی ذیلی ادارے ’یونیسیف’ کی طرف سے سفیر برائے خیرسگالی بھی بنایا گیا، جس کی بدولت انہوں نے انسانیت کے فروغ میں اپنا مزید عملی حصہ ڈالا۔

پُرسہ اور آخری بات

ہم جب دل کی گہرائی سے اس خاتون کا سفرِ حیات دیکھتے ہیں، تو کون سی خوشی تھی، جس کو اس نے حاصل نہ کیا، لیکن پھر بھی وہ جب اس دنیا سے گئیں، تو بقول ان کے بھائی زوہیب حسن کے ’نازیہ نے ایک افسردہ شخص کے طور پر جان دی، وہ درد لیے اس دنیا سے رخصت ہوئیں‘۔

بغور دیکھا جائے، تو نازیہ حسن کم عمری سے ہی سنجیدہ تھیں اور خلقِ خدا کی خدمت کے لیے کوشاں رہتی تھیں۔ ایک عجیب سی اداسی تھی، ان کی آنکھوں میں وہ طاری رہتی، ان کی آواز میں سرایت کرتی محسوس ہوتی۔ شادی کے ناکام تجربے نے ان کو اندر سے توڑ پھوڑ دیا تھا۔ ان کی موت کی وجہ صرف کینسر نہیں تھی بلکہ وہ تو اس کو ایک بار شکست بھی دے چکی تھیں، لیکن اس مرتبہ روح کے سرطان میں مبتلا ہوئیں، تو پھر شفا نہ پاسکیں اور صرف 35 برس کی عمر میں اس دنیا سے چلی گئیں۔

نازیہ حسن کو بات کرتے ہوئے دیکھیں یا ان کے گیتوں کو تنہائی میں سنا جائے، تو ایسا محسوس ہوتاہے جیسے وہ اس دنیا سے مختلف تھیں۔ انہوں نے برق رفتاری سے اپنے کام کو سمیٹا، دنیا کو میٹھے اور سریلے گیت دیے، خدمتِ خلق کا کام کیا، دنیا دیکھی اور پھر دنیا سے جی اکتا گیا اور وہ اس دنیا سے دُور چلی گئیں لیکن جب تک دنیا میں پوپ میوزک کی بات ہوگی اور اس میں جنوب ایشیا کے پوپ میوزک کا تذکرہ ہوگا، تب تک نازیہ حسن کی یاد بار بار پلٹ کرآتی رہے گی۔

وہ ایک خوش نصیب گلوکارہ اور بدنصیب بیوی تھیں، جس نے والدین کی مرضی سے شادی کی تھی۔ انہوں نے رشتوں کے زخم جھیلے اور عام خیال ہے کہ وہی ان کی حتمی موت کی وجہ بنے۔

نازیہ حسن کی آواز، آنے والی نسلوں کو، پاکستان کی جدید موسیقی سے متعارف کرواتی رہے گی۔ وہ ایک اسیر شہزادی تھیں، جنہوں نے زندگی سے جلد خلاصی لے لی، مگر اس طرح زندگی کی گرفتاری سے رہائی انتہائی تکلیف دہ تھی۔ پاکستان کی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے اپنی ایک نظم میں پاکستانی عورت کے لیے، ان احساسات کو کچھ یوں قلم بند کیا تھا کہ۔۔۔۔

سنگ دل رواجوں کی
یہ عمارت کہنہ
اپنے آپ پر نادم
اپنے بوجھ سے لرزاں
جس کا ذرہ ذرہ ہے
خود شکستگی کا ساماں
سب خمیدہ دیواریں
سب جھکی ہوئی گڑیاں
سنگ دل رواجوں کے
خستہ حال زنداں میں
اک صدائے مستانہ
ایک رقص رندانہ
یہ عمارت کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی۔۔۔۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp