وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت نے الیکشن التوا کے حوالے سے کیس میں موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے لہٰذا چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ بنائیں لیکن وہ ججز شامل نہیں ہونے چاہییں جو پہلے خود کو اس کیس سے الگ کرچکے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہبازشریف کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا، بائیکاٹ کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ تو خود ہی بینچ سے الگ ہوگئے تھے وہ اب کیسے بیٹھ کر اس حوالے سے فیصلہ دے سکتے ہیں؟
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس اس کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنائیں اور جن ججوں نے خود کو الگ کیا تھا ان کو شامل نہ کریں تو فیصلہ قوم قبول کرے گی لیکن اس وقت جو بینچ بیٹھا ہوا ہے اس سے فیصلہ کرانا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
انہوں نے اسمبلی اجلاس میں چیف جسٹس کے ریمارکس کا حوالہ دیا کہ دوران سماعت ریمارکس دیے گئے کہ جیلیں کاٹ کر آنے والے لوگ اسمبلی میں تقریریں کررہے ہیں تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نظریے کی خاطر لوگ جیلیں کاٹتے ہیں میں کسی کرمنل کیس میں جیل نہیں گیا۔
شہبازشریف نے مزید کہا کہ عمران نیازی نے اپنے دور میں اپوزیشن کو زیر عتاب رکھا ہوا تھا اور اسی وجہ سے مجھے دو بار جیل بھجوایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران نیازی کے دور میں اپوزیشن لیڈر ہونا میرا جرم تھا اور عوام کے حق میں آواز اٹھانے پر مجھے انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور آج اگر میں اس ایوان میں ہوں تو یہ بے توقیری کی بات نہیں ۔
90روز میں الیکشن والی شق کے ساتھ دوسری شقوں پر بھی بات کریں،وزیرقانون
اس موقع پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ الیکشن 90 روز میں کرانے والی شق کے ساتھ دوسری شقوں پر بھی بات کی جائے ۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس ہمیں کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر مسئلے کا کوئی حل نکال لیں تو میں عرض کرتا ہوں کہ آپ پہلے اپنا گھر تو درست کر لیں جہاں سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ جب صدر نے منتخب وزیراعظم سے حلف نہیں لیا تو کیا اس وقت آئین سے رو گردانی نہیں تھی اس لیے آئین کا بھاشن دینے والے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین سازوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بڑے عہدوں پر اتنے چھوٹے لوگ بیٹھ جائیں گے جو اپنی نوکری بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تو یہ بھی دیکھا کہ 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے 3 ججوں نے آئین کو ہی تبدیل کردیا اور اس معاملے پر اپیلیں سرد خانے میں پڑی ہوئی ہیں کیا کبھی ان پر بھی لارجر بینچ بنایا جائے گا۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ دیکھیں کہ آج ملک کس کٹھن دور سے گزررہا ہے اس کو بھی زیر بحث لایا جانا چاہیے۔
وزیرقانون نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں آبادکاری کے نتائج آج وہاں کے لوگوں سے پوچھیں اور اس کی ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے اور اس کا جواب اس وقت کی عسکری قیادت سے بھی پوچھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فیصلے وقت وقت کے مطابق ضرور کریں لیکن سکیل تو برابر رکھیں۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ ہے اور وہ یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ ملک میں الیکشن کب ہونے ہیں اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ موجودہ وقت الیکشن کے لیے بہتر نہیں تو وہ شیڈول کو آگے لے جاسکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ از خود نوٹس کیس چار تین سے مسترد ہو چکا ہے اور اب اگر الیکشن کے التوا کے حوالے سے تین ججز کا بینچ کوئی فیصلہ دیتا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ عوامی نمائندوں اور قوم کو قبول بھی ہوگا یا نہیں۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ہماری سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ سپریم کورٹ کے جو 6 ججز اب تک اس بینچ میں نہیں بیٹھے یہ کیس ان کو بھیج دیا جائے۔