کیا موسمیاتی تبدیلی سے کوہ پیمائی مزید مشکل ہوتی جارہی ہے؟

بدھ 28 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

براڈ پیک کو سر کرنے والی خاتون انعم عزیر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشئیرز کا رویہ بہت مختلف دیکھنے کو ملا، گلیشئرز پگھل رہے تھے۔ موسمیاتی تبدیلی کا اثر پہاڑوں پر خاص کر گلیشئرز پر پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے کوہ پیماؤں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انعم عزیز نے کہا کہ اگر حالیہ کوہ پیمائی کے تجربے کی بات کروں تو پہلے میں کے ٹو پر گئی تو ایسا لگ رہا تھا کہ اس سال کوئی چڑھائی نہیں ہوگی، کیونکہ جولائی کے آخری ہفتے میں کے ٹو کے کیمپ 2 تک کوہ پیما پہنچ نہیں سکے تھے۔ کچھ ہی لوگ گئے تھے کیونکہ کے ٹو پر برف بہت زیادہ تھی۔

مزید پڑھیں: ملک کے بیشتر علاقوں میں گلیشیئرز پھٹنے اور تباہ کن سیلاب کی وارننگ جاری

انہوں نے بتایا کہ براڈ پیک پر پہنچ کر مجھے لگا کہ یہی موقع ہے سر کرنے کا تو میں چڑھائی کے لیے گئی، براڈ پیک پر 3 طرح کے موسم کی صورتحال کے مطابق سر کرنے کے اوقات کا تعین کیا گیا، تینوں ہی اوقات فیل ہوگئے۔

’ہم اوپر گئے تو معلوم ہوا کہ پہاڑ کا موسم جو ہم نیچے سے دیکھ کرگئے تھے بالکل مختلف تھا اور موسم کی خرابی کی وجہ سے نیچے بیس کیمپ تک واپس آنا پڑا، جس کی وجہ سے انٹرنیشنل لیول کے کوہ پیما افسوس کرتے ہوئے واپس چلے گئے، پھر اس طرح کی حالت میں بہت ہی کم لوگوں نے پہاڑ کو سرکرلیا‘۔

ایک سوال کے جواب میں انعم عزیر نے بتایا کہ تین سے چار دن میں ہی واپسی پر پہاڑ سے نیچے آتے وقت حالت بالکل بدل چکی تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ مون سون کا موسم  شروع ہوچکا ہے، جس برف پر چڑھ کر ہم گئے تھے واپسی پر پانی کے چشمے بنے ہوئے تھے، اور جس جگہ پاؤں رکھتے تھے وہاں پانی ہوتا تھا۔

’پتھروں پر سے اترتے ہوئے نیچے آئے تو پتھر گررہے تھے، میرے اوپر بھی پتھر وہیں پر گرے جہاں پر کوہ پیما مراد سدپارہ پر گرے اور ان کی موت واقع  ہوئی تھی‘۔

انہوں نے بتایا کہ پہاڑوں کا رویہ بہت غیر متوقع تھا، جولائی کا موسم کوہ پیماؤں کے لیے بہتر مہینہ قرار دیا جاتا ہے، مگر آخری دنوں میں صورتحال تبدیل ہوگئی تھی۔

یہ پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی: گلگت بلتستان میں گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے سیلابی صورتحال، عوام بے یارومددگار

’جنوری میں جب میں اسکردو گئی تھی تو برف باری نہیں ہوئی تھی، اور راستے کم ہی کھلے ہوئے تھے اور اس کو سر کرنے کے لیے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں پہاڑ سر کرنا مشکل ہوسکتا ہے‘۔

موسمیاتی تبدیلی اور کرائیوسفیئر (cryosphere) ماہر ڈاکٹر شیرمحمد نے وی نیوز کو بتایا کہ ہندوکش ہمالیہ ریجن میں پچھلے 10سال سے گلیشئرز کا پگھلاؤ بڑھ گیا ہے، اور قراقرم ریجن میں خاص کر پاکستان میں گلیشئرز کا پگھلاؤ کم تھا مگر چند سالوں میں قراقرم رینج کے گلیشئرز میں تیزی کے ساتھ پگھلاؤ شروع ہوچکا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کوئی ایسا گلیشئر نہیں جس کی مانیٹرنگ ہورہی ہو، گلیشئرز کی مانیٹرنگ 5 سے 10سال کی ہوتی ہے۔ پچھلے 10سالوں میں ٹمپریچر کے اضافہ کے ساتھ گلیشئرز کے پگھلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ 2020 میں ہم نے ایک مشاہدہ کیا تھا کہ ٹمپریچر کے بڑھنے کے ساتھ ہیٹ ویو آنے کی وجہ سے گلگت بلتستان کا درجہ حرارت بھی زیادہ ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے پر اقوام متحدہ کو تشویش لاحق

انہوں نے کہا کہ جب ٹمپریچر بڑھتا ہے تو گلیشئرز کے پگھلاؤ میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ چند سالوں میں گلاف کے ایونٹس بہت زیادہ ہوئے ہیں، اور اس سے نہ صرف پہاڑوں پر جانے والے کوہ پیماؤں بلکہ لوگوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp