جرمنی میں جنگ عظیم دوئم کے بعد پہلی بار انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی( اے ایف ڈی) کو انتخابات میں کامیابی مل رہی ہے، جہاں پارٹی نے تھرنگیا میں 33.5 فیصد ووٹ حاصل کر لیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:جرمنی میں ملازمت کا خواب دیکھنے والوں کی راہ آسان ہوگئی
ایگزٹ پول کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘ نے تھورنگیا میں 33.5 فیصد ووٹ حاصل کر لیے ہیں جبکہ دائیں بازو ہی کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کو 24.5 فیصد ووٹ ملے ہیں۔
سروے کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی جماعت دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار جرمنی میں علاقائی انتخابات جیتنے کی راہ پر گامزن ہوئی ہے۔
ایگزٹ پولز کے مطابق 2013 میں تارکین وطن مخالف اور یورو شکن ایجنڈے کے ساتھ قائم ہونے والی ’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘ (اے ایف ڈی) نے مشرقی ریاست تھورنگیا میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر لیے ہیں۔
مزید پڑھیں:جرمنی میں بڑی تعداد میں ملازمین کی ضرورت، کوالیفکیشن کیا ہو؟ تنخواہ کتنی ملے گی؟
جرمن ٹیلی ویژن زویٹس ڈوئچے فرنسہین (زیڈ ڈی ایف )کے ایک جائزے کے مطابق پارٹی کو 2019 کے انتخابات میں 23.4 فیصد کے مقابلے میں 33.5 فیصد ووٹ ملے جبکہ مرکزی دھارے کی قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کو 24.5 فیصد ووٹ ملے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کسی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نے جرمن پارلیمان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس سے قبل اے ایف ڈی کو حریف جماعتوں کی جانب سے اقتدار سے باہر رکھا جانا تقریباً یقینی تھا۔
’زیڈ ڈی ایف‘ کے سروے میں کہا گیا ہے کہ ’اے ایف ڈی‘ نے ہمسایہ ریاست سیکسنی میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جہاں وہ سی ڈی یو کے بعد صرف آدھے فیصد پوائنٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
سی ڈی یو جو 30 سال قبل جرمن اتحاد کے بعد سے سیکسنی پر حکومت کر رہی ہے اور قومی سطح پر حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے، کے ریاست میں 32 فیصد ووٹ حاصل کرنے واضح امکانات ہیں۔لیکن سروے کے مطابق اتوار کو اے ایف ڈی 31.5 فیصد کے ساتھ بہت پیچھے تھی۔
یہ بھی پڑھیں:جرمنی واقعہ میں ملوث شرپسند عناصر پاکستانی اور افغان شہریوں میں تصادم چاہتے ہیں، امیر مقام
سیکسنی میں تقریباً 3.3 ملین اور تھورنگیا میں تقریبا 1.7 ملین لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے اہل تھے۔ بائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت سہرہ ویگنک نچٹ آلائنس (بی ایس ڈبلیو)، جو ’اے ایف ڈی‘ کی طرح امیگریشن پر سخت کنٹرول کا مطالبہ کرتی ہے اور یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنا بند کرنا چاہتی ہے تھورنگیا میں 16 فیصد اور سیکسنی میں 12 فیصد ووٹوں کے ساتھ دونوں ریاستوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔
جرمن چانسلر کے اتحاد کو دھچکا
انتہائی دائیں بازو کی جماعت کی یہ کامیابی ستمبر 2025 میں ہونے والے وفاقی انتخابات سے صرف ایک سال قبل جرمن چانسلر اولاف شولز کے اتحاد کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا ہے۔
شولز کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) اس وقت گرینز اور لبرل فری ڈیموکریٹس (ایف ڈی پی) کے ساتھ مل کر قومی سطح پر حکومت کر رہی ہے۔ اتوار کے روز ان جماعتوں کو انتہائی کمزور نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ ’اے ایف ڈی‘ کے ریاستی حکومت بنانے کے قابل ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس اکثریت کی کمی ہے اور دیگر جماعتیں اس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکاری ہیں۔
واضح رہے کہ اے ایف ڈی سابقہ کمیونسٹ مشرق علاقے میں سب سے مضبوط ہے جہاں مقامی انٹیلی جنس ایجنسی نے سیکسنی اور تھورنگا میں پارٹی کی برانچز کو دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں کے طور پر سرکاری نگرانی میں رکھا ہوا ہے۔
تھورنگیا میں اے ایف ڈی کے رہنما بورن ہوئیکے نے نورڈہاؤسن میں ایک انتخابی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہماری آزادیوں پر تیزی سے قدغن لگائی جا رہی ہے کیونکہ ایسے لوگوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے جو ہمارے ملک کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
تاریخ کے سابق استاد بورن ہوئیکے ایک پولرائزنگ شخصیت کے طور پر مانے جاتےہیں جنہوں نے نازی جرمنی میں یورپ کے یہودیوں کے ہولوکاسٹ کی یاد میں قائم کی گئی برلن یادگار کو ’شرم کی یادگار‘ قرار دیا تھا۔انہیں اس سال کے اوائل میں پارٹی کی ایک ریلی میں نازی نعرہ استعمال کرنے پر سزا سنائی گئی تھی۔