وزیراعلیٰ پنجاب کے وژن کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کا پہلا ایکشن پلان اور اپنی نوعیت کی پہلی جامع پالیسی تیار کر لی گئی۔ جبکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے وسائل بھی فراہم کیے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے وژن کے تحت سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی نگرانی میں ایکشن پلان اور پالیسی تیار کی گئی۔ واضح رہے کہ مریم اورنگزیب سیاست میں آنے سے قبل وائلڈ لائف کی بہتری اور موسمیاتی تبدیلیوں کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے مریم اورنگزیب کو اس شعبے میں اُن کی خصوصی مہارت پر انہیں یہ ذمہ داری سونپی تھی۔ سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب ایکشن پلان اور کلائمٹ ریزیلی انٹ پنجاب پالیسی کا باضابطہ اجرا کریں گی۔
47 صفحات پر مشتمل پالیسی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے تمام پہلوﺅں اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ ملکی اور غیرملکی ماہرین سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پالیسی اور ایکشن پلان تیار کیا گیا۔ 30 عالمی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ایکشن پلانز، معاہدوں، پالیسی دستاویزات اور وعدوں کو کلائمیٹ ریزلینٹ پنجاب پالیسی اور ایکشن پلان میں شامل کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں عالمی ماحولیاتی ڈونرز، سول سوسائیٹی، ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ملکی تنظیموں کی تجاویز بھی شامل کی گئی ہیں۔
پالیسی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے، روک تھام، جنگلات، جنگلی حیات کے تحفظ و فروغ، فضائی وآبی آلودگی کے سدباب کے اقدامات شامل ہیں۔
پالیسی میں بیان کیا گیا ہے کہ پنجاب قومی جی ڈی پی میں 54.2 فی صد حصہ ڈالتا ہے، موسمیاتی تبدیلیاں اس کی ترقی کی شرح کو متاثر کررہی ہیں۔ وسطی اور مشرقی پنجاب میں 7 لاکھ شہری گرمی کی شدید لہر(ہیٹ ویو) کے خطرے کا شکار ہیں۔ پنجاب میں موسمیاتی تبدیلیوں سے فصلوں کے نقصانات، سیلاب سے تباہی اور بارشوں کی شدت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ساڑھے 51 کروڑ ڈالر کے مالی نقصانات کا تخمینہ ہے۔
گزشتہ سال پنجاب میں گرمی کی شدت سے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں 89 فی صد اضافہ ہوا۔ شدید گرمی کے سبب پنجاب میں 2023 میں جنگلات میں آگ لگنے کے 199 جبکہ 2024 میں 377 واقعات ہوئے۔ شمالی اور مشرقی پنجاب کے علاقوں میں شدید گرمی سے آگ لگنے کے غیرمعمولی واقعات دیکھے گئے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے چولستان میں 75 سے 90 فی صد آبی بخارات میں کمی سامنے آئی ہے جس سے زمین کی نمی ختم ہورہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے پنجاب کے 36 اضلاع سیلاب کے خطرات کی زد میں ہیں۔
پالیسی میں 1960 سے اب تک کے موسمی رجحانات اور ان کے اثرات کا تفصیلی تجزیہ کیاگیا ہے۔ پالیسی میں2040، 2060، 2080 اور 2100تک کے ممکنہ موسمیاتی اثرات کا بھی تجزیہ کیاگیا ہے۔
پالیسی میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی بہتری کی کوشش نہ ہوئی تو 2050 میں شمالی پنجاب میں گرمی کی شدت 2.04 سے 2.06 ڈگری کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ موسمیاتی بہتری نہ ہوئی تو جنوبی پنجاب میں غیرمعمولی بارشوں کی شرح 9.3 فی صد بڑھ سکتی ہیں۔ راولپنڈی میں گرمی کی شدت میں 2.15، میانوالی میں 2.13، جہلم اور ڈیرہ غازی خان میں 2.12 فی صد گرمی کی شدت بڑھ سکتی ہے۔ فیصل آباداور سیالکوٹ میں 2.11، لاہور میں 2.08، سرگودھا میں 2.06، بہاولنگر ، بہاولپور اور ملتان میں 2 فی صد گرمی کی شدت بڑھنے کا امکان ہے۔ شدید اور غیرمعمولی بارشوں کے خطرات کا شکار پنجاب کے 9 شہروں میں بہاولنگر، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، ملتان، سرگودھا، سیالکوٹ، فیصل آباد، راولپنڈی، جہلم اور لاہور شامل ہیں۔
تین جہتوں پر مشتمل موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے پنجاب کے لیے کام ہوگا۔ آبی وسائل، بائیوڈائیورسٹی کے فروغ، ایکوسسٹم کے تحفظ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ، ہیلتھ اینڈ موسمیاتی انصاف کے لئے پالیسی اقدامات ہوں گے۔ توانائی، صنعت، ٹرانسپورٹ، ویسٹ اینڈ ویسٹ واٹر کے شعبوں میں آلودگی اور موسمیاتی خطرات میں کمی لائی جائے گی۔ جنگلات اورشجرکاری میں اضافہ ، زراعت اور حیوانات کو ترقی دی جائے گی۔
منصوبہ بندی میں ماحولیاتی پہلوﺅں کو شامل کیاجائے گا، موسمیات کے شعبے کے لئے وسائل بڑھائے جائیں گے۔ 2027 تک شجرکاری اور سرسبز علاقوں میں 5 فی صد اضافہ کا ہدف مقرر ک یا گیا۔ اگلے تین سال میں آفات اور موسمی خطرات کا شکار اضلاع کا 100 فی صد سروے اوران سے بچاﺅ کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ زیادہ خطرات کی زد میں آنے والے علاقوں میں سیلاب سے بچاﺅ کا سو فی صد مینجمنٹ پلان بنایا جائے گا۔
گرمی کی شدت اور قحط کے خطرات کی زد میں آنے والے علاقوں میں بچاﺅ اور درجہ حرارت میں کمی لانے کا منصوبے پر عمل درآمد ہوگا۔ 2030 تک پنجاب میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے جدید نظام، نہروں، ندی نالوں پر ہائیڈرالک ڈھانچہ تعمیر کیاجائے گا۔
2030 تک پنجاب میں سیلاب کے خطرات سے دوچار تمام علاقوں میں پیشگی خبردار کرنے کا جدید نظام نصب کردیاجائے گا۔
2030 تک پنجاب کے سیلاب کے خطرات سے دوچار تمام علاقوں میں متبادل عارضی رہائش گاہوں اور صاف پانی کی فراہمی کا بندوبست مکمل کیاجائے گا۔
2035 تک پنجاب بھر میں زیر زمین پانی کو سو فی صد ریگولیٹ کیا جائے گا ۔
2035 تک پنجاب بھر میں سیلاب زدہ اور بارانی علاقوں میں سیلابی اور بارشی پانی کو جمع کرکے کھیتی باڑی کرنے کا جدید نظام قائم کیا جائے گا۔
2035 تک جنگلات اورسرسبز علاقوں کی تعداد میں پندرہ فی صد اضافہ کیاجائے گا ۔
اگلے تین سال میں پنجاب کی توانائی کی ضروریات کو 60 فی صدبائیو ماس، ہوا اور شمسی توانائی کے متبادل ذرائع پر منتقل کردیاجائے گا۔ اگلے تین سال میں سرکاری عمارتوں، سکولوں اور ہسپتالوں کو 30 فی صد شمسی توانائی پر منتقل کیاجائے گا۔ اگلے تین سال میں پنجاب میں توانائی کے باکفایت استعمال کے طریقوں کو عام کرکے توانائی کی کھپت میں 10 فی صد کمی لائی جائے گی۔
2030 تک پنجاب میں بجلی سے چلنے والی کاروں کی تعداد 30 فی صد کی جائے گی ۔
2030 تک ویسٹ ٹریٹمنٹ کی 5 سہولیات قائم کی جائیں گی ۔
2030 تک پنجاب میں گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج میں 25 فی صد کمی کی جائے گی ۔
پالیسی اہداف کی تکمیل کے لیے ماحولیاتی قوانین میں ترامیم، موثر نفاذ، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، عوامی آگاہی کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ تعلیمی نصاب میں ماحولیاتی مضامین کو شامل کرنے، ہر محکمے میں ماحولیاتی شعبہ قائم کرنے، وفاق اور صوبوں میں اشتراک عمل کے اقدامات بھی تجویز کئے گئے ہیں۔ پالیسی اہداف کے حصول اور عمل درآمد کے لیے سینئر وزیر پنجاب کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی۔