حوالہ کے معنی ہیں “منتقل کرنا“۔ مختلف کلچرز میں اس کے دیگر نام بھی ہیں جیسا کہ ہندی میں اسے ہنڈی(Hundi)، چائنیز میں اسے فی چی ین(fei-ch’ien)، فلپائن میں پاڈالا(Padala)اور تھائی لینڈ میں فی کاوان(phei kwan) جیسے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ قدیم بینکاری کے نظام میں یہ رقم یا قدر کی منتقلی کا نظام تھا جو کہ آج بھی متبادل یا انڈر گراؤنڈ بینکاری کے طور پر چل رہا ہے۔ اس نظام کو حوالہ داران کے منظم نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ یہ نیٹ ورک چھوٹے قصبوں، دیہاتوں اور شہروں سے لے کر بین الاقوامی سطح تک پھیلے ہوتےہیں اور اس کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ بھی اس کی وسیع پیمانے پر رسائی ہے۔
فرض کریں آپ کا کوئی عزیز بیرون ملک ہے اور وہ آ پ کو رقم پاکستان منتقل کرنا چاہتا ہے تو وہ اس ملک میں موجودنزدیکی حوالہ دار کے پاس جائے گا اور طے شدہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق رقم اور آپ کے کوائف دےگا۔ بیرون ملک بیٹھا وہ حوالہ دار اپنے نیٹ ورک کے پاکستان میں بیٹھے حوالہ دار کو مطلوبہ رقم کی تفصیلات اور آپ کے کوائف ایک واٹس ایپ میسج یا کسی بھی خفیہ مواصلاتی نظام کے ذریعے بھیجے گا۔ پاکستان میں موجود وہ حوالہ دار آپ کے کوائف کے مطابق مطلوبہ رقم آپ تک پہنچا دے گا۔
مگر اس سارے عمل میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ رقم اصل میں پاکستان منتقل ہوئی ہی نہیں، پاکستان میں بیٹھے حوالہ دار نے صرف ایک پیغام پر مطلوبہ رقم آپ کے حوالے کردی۔ اس کی وجہ سے پاکستان اور بیرون ملک حوالہ داران کے درمیان ایک کھاتا بن جاتا ہے جس کے تحت بیرون ملک بیٹھے حوالہ دار کو مطلوبہ رقم اور منتقلی کی فیس کا حصہ پاکستان میں بیٹھے حوالہ دار کو ادا کرنا ابھی باقی ہے۔ اس طرح کی بے شمار ٹرانزیکشن کے بعد حوالہ داران ایک خاص مدت کے بعد کھاتے کا بندوبست (Settlement) کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو رقم کی منتقلی کا یہ نظام رفتار، پہنچ، گمنامی، سادگی اور سہولت کے حساب سے جدید بینکاری نظام سے کافی آگے ہے۔ حوالہ دار پیغام کے ملتے ہی رقم آپ کے دروازے تک پہنچا دیتے ہیں۔ جب کہ جدید بینکاری میں بہت سی سہولیات کے بعدبھی کچھ مسائل ہیں۔ صارفین اکثربینک کی سہولیات کو لے کر شکوہ کرتے ہیں کہ بینک میں خود جا کر بھی انہیں “سسٹم کی خرابی” یا “رقم ابھی نہیں پہنچی” جیسے بہانوں سے پریشان خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بینک کے انسداد تتطہیر زر اور دہشت گردی کی مالیات کاری کا توڑ(AML/CFT)کرنے والےسخت قواعد و ضوابط جیسا کہ CDD/KYC، بائیو میٹرک، کاغذات کی جانچ پڑتال وغیرہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ جبکہ حوالہ نظام کے تحت صارفین کو ایسی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حوالہ داران کا ایک بڑا مسئلہ لمبے عرصے تک رقم کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ ان کو رقوم کی بروقت منتقلی کے لئے دستیاب نقدی کی ضروت ہوتی ہے اور اتنی بڑی رقم کو لمبے عرصے تک مخفوظ رکھنے کے لئے بینک کی محتاجی کا سامنا ہوتاہے۔ ان کی اسی محتاجی کی وجہ سے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کے متعین کردہ مشکوک لین دین کےرویہ(Red Flags) کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بینک ایسی مشتبہ ٹرانزیکشن کی رپورٹ (STR) داخل کرتے ہیں، جس سے حوالہ داران کو باآسانی قانون کی گرفت میں لایا جا سکتا ہے۔
حوالہ داران کی اس محتاجی کو کرپٹو کر نسی یا ورچوئل ایسٹ دور کرتی ہے جو کہ بلاک چین ٹیکنالوجی کااستعمال کرتی ہے۔ بلاک چین ٹیکنالوجی میں ڈیٹا ایک دوسرے سے جڑے بلاکس میں محفوظ ہوتا ہے جیسا کے ریل گاڑی کے ڈبے۔ کرپٹو کرنسی کے نظام میں عمومی طور پر ان بلاکس میں ٹرانزیکشن کی معلومات ہوتی ہے جو کہ اس نیٹ ورک میں موجود کوئی بھی شخص دیکھ سکتا ہےلیکن ٹرانزیکشن کرنے والے صارفین کی شناخت واضح نہیں ہوتی۔ اس نیٹ ورک کو اس میں موجود لوگ مل کر چلاتے ہیں اور کوئی ادارہ یا اتھارٹی ان ٹرانزیکشن کی سرپرستی نہیں کرتے۔
کرپٹو کرنسی میں لگ بھگ وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کہ ایک حوالہ کے نظام میں ہیں۔ مگر اس میں ایک خوبی زیا دہ ہے اور ایک کم بھی۔ جیسا کہ ہم نے بتایا کہ حوالہ داران کی رقم کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھنے کی محتاجی کو کرپٹو کرنسی دور کرتی ہے اور یہ رفتار، پہنچ، گمنامی اور سہولت میں حوالہ سے بھی آگے ہے۔ مگر سادگی جیسی خوبی صرف حوالہ میں ہے، کیونکہ کرپٹو کرنسی کے موثر استعمال کے لئے سسٹم کی تکنیکی خواندگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ تجزیہ کار کرپٹو کرنسی کو حوالہ کا جدید یا ور چوئل چہرہ بھی قرار دیتے ہے۔
چین ایلسیز (Chainalysis)جو کہ کرپٹو کرنسی کے تجزیہ کی ایک کمپنی ہے، اس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ان کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی، روپے کی ڈالر کے مقابلے میں پسپائی اور فارن کرنسی کو لے کر سٹیٹ بنک کے سخت اقدامات نے پاکستانیوں کو کرپٹو کرنسی کے استعمال پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ اگر ایشیا پیسیفک گروپ (APG) جو ایف اے ٹی ایف (FATF) کا ایک ریجنل ادارہ ہے کی میوچول ایویلویشن رپورٹ(MER-2019) کوپڑھیں تو وہ رپورٹ حوالہ کے استعمال کو لے کر دہشت گردی کی مالیات کاری کے بڑے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔
دونوں نظاموں کو دیکھا جائے تو ان کی مشترکہ خوبیوں کے مد نظر ان کا فطری اتحاد صاف نظر آتا ہے۔ یہ اتحاد متبادل یا انڈرگراؤنڈ بینکاری کو اور مضبوط کرے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حوالہ دار اپنی کرپٹو کرنسی بنا لیں۔ بین الاقوامی ادارہ منشیات و جرائم (UNODC) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق ایک اچھی تعداد میں حوالہ داران کرپٹو کرنسی کی سوچ سمجھ رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ منسلک بھی ہیں۔ حوالہ داران اور کرپٹو کرنسی کا ممکنہ گٹھ جوڑ پاکستان کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی شدید لہر کا شکار ہے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت میں حوالہ نظام پیش پیش ہے۔
پاکستان آج ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے جہاں اس ممکنہ گٹھ جوڑ سے پیدا ہونے والی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے بروقت قانونی اور انتظامی اقدامات لینا بہت ضروری ہے۔ ایف اے ٹی ایف (FATF)نے حال ہی میں اپنی سفارشات میں کچھ تبدیلیاں لائی ہیں، جن کے بارے میں اگر مختصر بات کی جائے تو پاکستان کو کرپٹو کرنسی کے غلط استعمال کو لے کر اقدامات لینا ضروری ہیں۔ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے غیر یقینی دور کر کے فوری قانون لایا جائے جو کرپٹو ایکسچینجزVASPs) )کو انسداد تطہیر زر اور دہشت گردی کی مالیات کاری کا توڑ (AML/CFT)کرنے والے اقدامات لینے کا پابند بنائے یا پھر اس کو قانون کے تحت ممنوعہ قرار دیا جائے اور سخت اقدامات کر کے اس کی روک تھام یقینی بنائی جائے۔ دوسری طرف ایف آئی اے (FIA)کو حوالہ نیٹ ورکس کے خلاف موثر کاروائیاں کرنا ہوں گی۔ تاہم ایف آئی اے کو اس اثناء میں کچھ قانونی مشکلات کا سامنا ہےجیسا کہ سپیشل کورٹس کا قیام ضروری ہےاور کچھ قانون میں تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہےجس سےحوالہ کے کاروبار سے منسلک لوگوں کی سزا کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس وقت پاکستان کو اسٹریٹیجک اور دور اندیش قومی پالیسی کی اشدضرورت ہے جو کہ حوالہ اور کرپٹو کرنسی کے گٹھ جوڑ سمیت دیگر نئی ٹیکنانالوجیس (Emerging Technologies)سے پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔