پاکستان تحریک انصاف نے عدالتی اصلاحات بل روکنے کے لیے مختلف قانونی آپشنز پر غور شروع کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق صدر مملکت عدالتی اصلاحات کا بل سپریم کورٹ بھیجنے کے آپشن پر غور کر رہے ہیں۔
ذرائع نے وی نیوز کو بتایا کہ ’عدالتی اصلاحات کے بل کے خلاف پارٹی کے علاوہ صدر مملکت خود بھی معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجنے پر غور کر رہے ہیں‘۔
ذرائع کے مطابق ’تحریک انصاف اس حوالے سے قانونی ٹیم کے ساتھ مشاورت کر رہی ہے جس میں مختلف آپرشنز پر غور کیا جارہا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا اختیار سپریم کورٹ کے رولز اینڈ پروسیجر کے مطابق چیف جسٹس کے پاس ہی موجود ہے‘۔
عدالتی اصلاحات سے متعلق بل منظوری کے لیے صدر مملکت کو ارسال
ذرائع کے مطابق ’عدالتی اصلاحات بل سپریم کورٹ کے رولز اینڈ پروسیجر سے متصادم ہے جس کی بنیاد پر اس بل کو چیلنج کیا جائے گا۔ سو موٹو نوٹس لینے اور بنچ تشکیل دینے کا اختیارات سے متعلق فیصلہ فل کورٹ اجلاس ہی میں کیا جاسکتا ہے جو کہ صرف چیف جسٹس کا ہی اختیار ہے‘۔
خیال رہے کہ عدالتی اصلاحات بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت کو بھیج دیا گیا ہے تاہم صدر مملکت نے تاحال بل کی منظوری نہیں دی۔
عدالتی اصلاحات بل ہے کیا؟
بل کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے سینیئر ترین تین ججوں کی کمیٹی کسی بھی معاملے پر از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔
اس کمیٹی میں چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے دو سینیئر ترین جج شامل ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو از خود نوٹس لینے کا اختیار ہے۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رکنی بینچ تشکیل دے گی۔ آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججز کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔
بل کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
بل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔
عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو بھی محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔