سفید ریچھ کا دیا ہوا زخم

جمعہ 7 اپریل 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ دسمبر 1979 کی ایک یخ بستہ شام تھی اور ماسکو شدید برف باری کی لپیٹ میں تھا۔ سیاہ رنگ کی ایک گاڑی روسی صدر برژنیف کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہوئی اور لمبے قد کا ایک آدمی ہاتھ میں کوئی فائل لیے تیزی کے ساتھ اس کمرے کی طرف بڑھا جہاں روسی صدر اس کا منتظر تھا۔

گاڑی میں آنے والے شخص کا نام یوری آندرو پوف تھا اور وہ اس وقت روسی انٹیلیجنس ایجنسی ’کے جی بی‘ کا سربراہ تھا۔

تھوڑی دیر میں خفیہ ادارے کے  سربراہ نے روسی صدر کو ان انٹیلیجنس معلومات کے بارے بریف کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ چند دن پہلے افغانستان کے صدر حفیظ اللہ امین نے امریکی سفارت کار آرچر بلڈ کے ساتھ خفیہ ملاقات کی ہے اور اس ملاقات میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ افغانستان میں امریکی مفادات اور اثر و رسوخ کو روس پر فوقیت دی جائے گی۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حفیظ اللہ امین کافی عرصہ امریکا میں رہائش پذیر بھی رہے ہیں۔

یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے حفیظ اللہ امین روس نواز نور محمد ترہ کئی کے قتل کے بعد اقتدار میں آئے تھے جب کہ حفیظ اللہ امین کو بھی روس کی تائید حاصل تھی۔

اس بریفنگ کے 3 دن بعد 12 دسمبر کو روس کی پولٹ بیورو نے کوئی بحث کیے بغیر یعنی کافی عجلت میں افغانستان میں روسی افواج کے داخل ہونے کی منظوری دے دی۔

27 دسمبر کو افغان فوجی وردیوں میں ملبوس کے جی بی اہلکار اور کمانڈوز کابل کے ایوان صدر میں داخل ہو گئے اور حفیظ اللہ امین کے قتل کے ساتھ ہی ریڈیو کابل سے روس نواز خلق پارٹی کے ببرک کارمل کی صدارت کا اعلان بھی کر دیا۔

اگلے 48 گھنٹوں میں روس کی مزید 2 ڈویژن فوج بھی افغانستان میں داخل ہوگئی اور یوں روس (جسے عرف عام میں سفید ریچھ کہا جاتا تھا) کی افغانستان میں فوج کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ گئی۔ تاہم اس کے ساتھ ہی  ایک طویل اور خونریز جنگ کا آغاز بھی ہو گیا۔ جس میں ایک طرف جدید اسلحہ، ٹیکنالوجی، ٹریننگ اور طاقتور انٹیلیجنس سے لیس روسی افواج تھی جبکہ دوسری طرف قبائل میں منقسم نیم حکومتی مملکت اور باقاعدہ فوج سے محروم انتہائی پسماندہ ملک افغانستان تھا۔

عمومی طور پر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غاصب بیرونی فوج کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو لیکن اگر مقامی جنگجو اپنی ضعف اور کمزوری کے باوجود بھی مزاحمت پر کمر بستہ ہو جائیں تو پھر انہیں روند کر گزر جانا سہل نہیں ہوتا، کیوں کہ مقامی جغرافیے سے شناسائی اور عوامی رابطہ اور اخلاقی سپورٹ ان کے طاقتور ہتھیار ہوتے ہیں۔ لیبیا، الجزائر اور ویت نام اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ سو افغان عوام نے اپنی جینیاتی ساخت اور گوریلا جنگ کے تاریخی تجربے کا فائدہ اٹھاتے اور ماضی کی روایت کو نبھاتے ہوئے افغانستان کے پر پیچ راستوں اور سنگلاخ پہاڑوں سے شناسائی کو اپنی طاقت بنا کر  غاصب روسی افواج کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کردیا۔ اس جنگ نے آنے والے دنوں میں نہ صرف پاکستان اور مسلم امہ کی توجہ حاصل کر لی بلکہ مغربی ممالک خصوصاً امریکا بھی اپنے مفادات کے لیے افغانوں کی مدد کو آن پہنچا۔ اس دوران شدید اور خوفناک جنگ کی وجہ سے تاریخ کی سب سے بڑی مہاجرت بھی دیکھنے میں آئی جب 50 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین ہمسایہ ملک پاکستان میں داخل ہوئے (جن کی ایک بڑی تعداد ابھی تک پاکستان ہی میں مقیم ہیں )۔

اگلے دنوں میں یہ جنگ سی آئی اے سے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر اور سعودی شاہی محل اور  وائٹ ہاؤس سے یونائیٹڈ نیشن تک سب سے اہم اور قابل توجہ موضوع کی شکل اختیار کر چکی تھی۔

دوسری طرف عالمی سطح پر لاجسٹک سپورٹ کے باوجود بھی عملی طور پر میدان میں افغان مجاہدین نہ صرف ذاتی طور پر ہی  موجود تھے بلکہ طاقتور روس کے خلاف ان کی مزاحمت بھی شاندار اور حیرت انگیز تھی۔ خصوصاً کابل کے آس پاس گلبدین حکمت یار اور وادیِ پنج شیر میں احمد شاہ مسعود نے گوریلا جنگ کی کامیابیوں کو ایک آرٹ کے طور پر پیش کیا۔

ان دونوں نوجوان لیڈروں نے پوری دنیا سے خراج تحسین وصول کیا۔ ایک موقع پر جب اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے وہائٹ ہاؤس میں افغان مجاہدین لیڈروں کو ملاقات کی دعوت دی تو پروٹوکول کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ عجلت میں اس ہال میں داخل ہوئے جہاں اسے گلبدین حکمت یار سے ملنا تھا۔

یہ جنگ لگ بھگ نو سال تک جاری رہی جس نے افغان قوم کی جھولی میں 15 لاکھ لاشیں اور طویل مہاجرت بھی ڈال دی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک اور نقصان دہ وہ منظر نامہ ہے جس سے باہمی نفاق، خانہ جنگی، مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی اور عالمی سطح پر تنہائی برآمد ہوئے۔

فروری 1979 میں شکست خوردگی اور تھکاوٹ کی شکار روسی فوج افغانستان کو لہو لہان چھوڑ کر جس وقت واپس دریائے آمو کے پار چلی گئی تب طاقتور روس بھی اتنا زخم خوردہ کہ وہ اپنے وجود کو بھی نہیں سنبھال سکا اور نہ صرف کئی ریاستوں میں بٹ کر رہ گیا بلکہ معاشی اور  اقتصادی طور پر زوال کی انتہا کو چھونے لگا تھا۔

تاہم آنے والوں برسوں میں روس نے خود  کو اپنے وژن۔ محنت اور غلطیوں کے ادراک کے سبب توانا اور ترقی یافتہ بھی بنایا اور طاقتور بھی، لیکن بدقسمتی سے افغانستان ترقی  دانش اور امن کے ہموار راستے پر آنے کی بجائے ان گھاٹیوں میں ابھی تک پھنسا ہوا ہے جہاں دہشت گردی، بندوق، مذہبی تنگ نظری، اور وژن سے محرومی نے اس بد نصیب ملک کو مسلسل تباہی اور تنہائی کی طرف ہی دھکیلا ہے۔

المیہ ملاحظہ ہو کہ 40 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اب نہ تو افغانستان میں سفید ریچھ (روس) موجود ہے اور نہ ہی روس خلاف افغانوں کی دلیرانہ مزاحمت  باقی ہے، لیکن کابل کا رستا ہوا زخم اور لہو لہان جسم اب بھی سنبھلنے کا نام نہیں لے رہا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp