پاکستان میں تقریباً 8 کروڑ افراد ذیایطس سے متاثر ہیں اور اس مرض کی تشخیص میں جتنی تاخیر ہوتی ہے اس کی پیچیدگیاں مریض کے لیے اتنی ہی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔
پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر مقصود احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شوگر کے مرض کے پھیلاؤ کی شرح 30 فیصد سے زیادہ ہے اور ملک کے تقریباً 8 کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔
یہ بھی پڑیں: کیا موٹاپا، ذیابیطس اور سگریٹ نوشی ڈیمنشیا کی وجہ بن سکتے ہیں؟
غیر منافع بخش تنظیم ہوم ٹاؤن کمیونٹی فاؤنڈیشن کے چیئرپرسن، پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر مقصود احمد نے پیر کو اے پی پی سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ملک میں ذیابیطس کا مرض تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے جس پر قابو پانے کیلئے مشترکہ کاوشیں ناگزیر ہیں تاکہ مریضوں کی طبی، مالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو اس کے منفی اثرات سے بچایا جا سکے۔
ڈاکٹر مقصود احمد نے بتایا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ہوم ٹاؤن کمیونٹی فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے اس مرض پر قابو پانے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں اور فیصل آباد میں ملکی تاریخ کا پہلاسی سی ڈی سینٹر قائم کیا گیا ہے جہاں پر ذیابیطس کے مریضوں کو بیماری سے نجات کے طریقہ کار سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگیوں سے بچاؤ کے لیے رہنمائی بھی فراہم کی جائے گی۔
ذیابیطس جتنا پرانا اتنا ہی پیچیدگیوں کا باعث
انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کا مرض پرانا ہو جائے تو مریض کے لیے طبی، معاشرتی اور مالی پیچیدگیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ خاندانوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں ذیابیطس کے مرض کے تیزی سے پھیلاؤ کے پیش نظر اس کے کنٹرول کے لیے سالانہ 10کھرب روپے کے مالی وسائل کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیے: ذیابیطس کے مریض آم اور دیگر میٹھے پھلوں کا استعمال کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر مقصود احمد نے کہا کہ ذیابیطس کا علاج بہت مہنگا ہے اس وجہ سے ان کی تنظیم نے اس مرض پر قابو پانے کے لیے پریوینٹو ہیلتھ کیئرسسٹم متعارف کروانے پر زور دیا ہے اور اس مقصد میں کامیابی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کا تعاون درکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر فیصل آباد میں پہلا سی سی ڈی سینٹر قائم کیا گیا ہے جس کے بعد اس سہولت کو ملک کے دیگر شہروں میں بھی متعارف کرایا جائے گا۔
مزید پڑھیں: ٹائپ 2 ذیابیطس یا شوگر سے نجات کے لیے کتنا تیزی سے چلنا ضروری ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہماری تنظیم مرض کی تشخیص کے لیے مصنوعی ذہانت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کو یقینی بنا رہی ہے اور امریکا سے ایسے آلات درآمد کیے گئے ہیں جو ذیابیطس سمیت 15 قسم کے امراض کی تشخیص کرسکتے ہیں۔