یہ اتوار کا دن تھا۔ ایک آدھی جلی اور تازہ دفنائی ہوئی لاش کی غائبانہ جنازے نماز ادا کرنے کے بعد سندھی میں نوحہ گایا جا رہا تھا:
“ہر دور میں، ہم لوٹیں گے؛ میرے پیارے، سندھو کے کنارے ملیں گے۔ جب اندھیرا گزر جائے گا، اس پورے چاند کی رات ہم ملیں گے” (سندھی سے ترجمہ شدہ)۔
یہ نوحہ گانے والا مانجھی فقیر تھا جسے دو سال قبل انہی الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا جو شاہنواز کے قتل کی وجہ بنے۔ سچ کہتے ہیں کہ درد اسی دل میں ظاہر ہوتا ہے جو پہلے اس کا سامنا کر چکا ہو۔ کہا جا رہا ہے کہ اس آدھی جلی ہوئی لاش کو کسی ہندو نوجوان نے “بچایا” ہے۔ یعنی ایک ایسے انسان نے اس لاش کو جلنے نہیں دیا جو یقین رکھتا ہے کہ لاش جلنے کے بعد ہی اپنے حقیقی محبوب سے مل سکے گی۔ حالانکہ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے، لیکن اس کے دل میں دوسرے عقیدے کے عقیدت مند کا احترام ہے۔ اس سے بڑی انسانیت کی مثال اور کیا ہو گی؟
اتوار کے روز ایکس پر ایک ویڈیو چل رہی تھی، جس میں ایس ایس پی عمرکوٹ لوگوں کے ایک اجتماع میں موجود تھے۔ اس ویڈیو میں وہ عوام کو اکساتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ انہیں ایک آزاد گواہ کی ضرورت ہے، جو عدالت میں پیش کیا جا سکے۔ یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ اسی رات پولیس نے آزاد گواہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک غیر قانونی فیصلہ کر لیا اور شاہنواز کو گولی مار کر قتل کر دیا۔
یہ واقعہ ہمارے حکومتی اداروں کی کارکردگی کا ایک واضح ثبوت ہے، جس میں پولیس کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ پولیس کا ایک ہفتے میں دوسرا بڑا واقعہ ہے، جس میں انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ جیکب آباد کی پولیس کا ایک واقعہ بھی ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے، جہاں انہوں نے ایک پولیو ورکر کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کو چھپانے کی کوشش کی۔ اب، عمرکوٹ کی پولیس نے بھی اپنی کارکردگی کو اسی طرح پیش کر دیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے عوام کی حفاظت کے بجائے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور قانون و عدالت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ تمام صورتیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ہمارے حکومتی ادارے کس جانب جا رہے ہیں۔
قتل کے بعد شاہنواز کی لاش کو اس کے رشتہ داروں کے حوالے کیا گیا، لیکن یہاں سے ایک اور دردناک کہانی شروع ہوئی۔ جب لاش کو گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تو یہ صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی۔ رشتہ داروں نے اسے دفنانے کی کوشش کی، مگر انہیں یہ بھی نہیں کرنے دیا گیا۔ اس کے بعد جب لاش کو کسی ریگستانی علاقے میں دفن کرنے کی کوشش کی گئی، تو وہاں بھی لوگ جمع ہو گئے۔ اس موقع پر لوگوں نے لاش کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسے آگ لگا دی۔
یہ صورتحال محبت کا ایک ایسا اظہار ہے، جسے سمجھنا واقعی مشکل ہے۔ خدا اور اس کے رسول سے محبت کی بات کی جائے تو بیچ میں نفرت کے واقعات کیسے آ جاتے ہیں؟ محبت کی کوکھ سے ہمیشہ محبت ہی جنم لے سکتی ہے، لیکن جب ہم محبت کا ٹائٹل لگا کر دنگے فساد کرتے ہیں تو دراصل ہم خود اپنی تعلیمات کا نقصان کرتے ہیں۔ ان اعمال سے نہ صرف متاثرہ افراد کو نقصان پہنچتا ہے، بلکہ ان تمام مذہبی اصولوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے، جنہیں اہلِ مذہب اچھا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم واقعی محبت کی روح کو سمجھ پائے ہیں یا پھر ہم اپنی خواہشات اور نفرتوں کے جال میں پھنس کر اصل پیغام سے دور ہو گئے ہیں؟
سندھی گیت کا ترجمہ:
چاہے یورپ ہو یا لبنان، جہاں جہاں مارا گیا انسان
انھی انسانوں کے خون اور ارمانوں کے ساتھ ہم ملیں گے
اسی شورش کے مارے ہم سندھو کنارے ملیں گے۔
یہ الفاظ صرف ایک خوبصورت خیال نہیں، بلکہ ایک عملی ضرورت ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا ہم واقعی اس محبت کا حقیقی مظہر ہیں یا صرف ایک دکھاوے کے لیے اس کی باتیں کرتے ہیں؟ یہ ہمارے لیے ایک بڑا سوال ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں محبت کی حقیقی روح کو کیسے نافذ کر سکتے ہیں۔