پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کو اپنی سروسز، جہازوں کی حالت زار، عملے کی تربیت اور کھانے کے میعار کے باعث ہمیشہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اب اس کی نجکاری کا عمل جاری ہے اور کہا جا رہا ہے کہ سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومتی اقدامات سے مہنگائی کم ہوئی، پی آئی اے کی نجکاری ہوکر رہے گی، مصدق ملک
چیئرمین پی آئی اے نے قومی اسمبلی کی کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے نے اب کھانے کا ٹھیکہ کچن کوزین کو دے دیا ہے جو ایک میعاری فوڈ چین ہے اور یہی کچن کوزین ٹرکش اور برٹش ایئر لائن کے مسافروں کو بھی کھانا فراہم کرتی ہے۔ پہلے ملازمین کو 25 تاریخ تک تنخواہ دی جاتی تھی جو کہ اب 5 تاریخ تک دے دی جاتی ہے، پی آئی اے کے نئے جہازوں میں اب وائی فائی سہولت بھی دستیاب ہو گی جس پر ماہانہ 3 لاکھ روپے خرچ آئے گا۔
’مسافروں کو دیا جانے والا کھانا اب زیادہ معیاری ہے‘
چیف ایگزیکٹو آفیسر پی آئی اے عامر حیات نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو بریفننگ دیتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں پی آئی اے کے مسافروں کے لیے کھانا پرانے ایئرپورٹ کے ساتھ تیار کیا جاتا تھا اور 50 کلومیٹر دور نئے ایئرپورٹ بھیجا جاتا تھا جس کے لیے کھانے کو اچھی طرح اسٹور کیا جاتا تھا بہت سا خرچ بھی آتا تھا لیکن پھر بھی کھانا میعاری نہ ہونے کی شکایات تھیں، اب پی آئی اے نے کھانا نجی فوڈ چین کچن کوزین کو آؤٹ سورس کر دیا ہے اور اب کھانا انتہائی میعاری ہو گیا ہے، برٹس اور ٹرکش ایئر لائن کے مسافروں کو بھی اسی فوڈ چین کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
’ملازمین کو 3 سال تک فارغ نہیں کیا جائے گا‘
عامر حیات نے بتایا کہ اب ملازمین کو وقت پر مہینے کے پہلے 5 دنوں میں تنخواہ ادا کر دی جاتی ہے جو کہ پہلے 25 تاریخ تک ملتی تھی، اس کے علاوہ دیگر الاؤنس اور میڈیکل اخراجات بھی وقت پر ادا کیے جاتے ہیں۔ پی آئی اے نجکاری میں حصہ لینے والوں کو کہا کہ وہ ملازمین کو مکمل تحفظ فراہم کریں گے اور 3 سال تک کسی ملازم کو نوکری سے فارغ نہیں کیا جائے گا۔
مزید پڑھیے: پی آئی اے کی نجکاری پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کی جائے،اسٹیل ملز سندھ حکومت خرید لےگی، بلاول بھٹو
سیکریٹری نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کی نجکاری پر بریفننگ دیتے ہوئے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے تمام مراحل کے بعد ہم فائنل مرحلے پر پہنچ چکے ہیں، 6 کمپنیاں اس وقت اپنی بولی کی تیاری میں ہیں اور یکم اکتوبر کو یہ کمپنیاں بولی میں حصہ لیں گی، بولی کے عمل کے بعد کابینہ فیصلہ دے گی کہ بولی کی قیمت منظور ہے یا نہیں، معاہدے کا حصہ ہے کہ پی آئی اے کا فلیٹ سائز بڑھایا جائے گا اور 3 سالوں میں فلیٹ 18 سے 45 فیصد بڑھایا جائے۔
معاہدے کے مطابق روٹس حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں سیل کر سکتے اور برطانیہ کا جب روٹ کھلے گا تو وہ بھی استعمال کیا جائے گا۔رکن کمیٹی سحر کامران نے سوال کیا کہ کیا نجکاری کمیشن کی تمام شرائط بولی میں دلچسپی لینے والی کمپنیوں نے قبول کرلی ہیں جس پر سیکریٹری نے بتایا کہ کمپنیوں نے ہماری تمام شرائط مانی ہیں جس کے بعد ہی فائنل ڈرافٹ بنایا گیا۔
کمیٹی ارکان نے مطالبہ کیا کہ فائنل ڈرافٹ کمیٹی کے ساتھ شیئر کیا جائے جس پر سیکریٹری نے کہا کہ ابھی فائنل ڈرافٹ کمپنیوں کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے اور کمپنیوں سے فائنل جواب آ لینے دیا جائے جس کے بعد وہ ڈرافٹ ہم کمیٹی کے ساتھ بھی شیئر کر دیں گے۔
پی آئی اے میں ملازمین کی تعداد
سیکریٹری نجکاری کمیشن کے مطابق پی آئی اے میں اس وقت موجودہ 7360 ملازمین ہیں اور ان ملازمین کی 35 ارب روپے پینشن پی آئی اے کے ساتھ جائیں گی جبکہ ریٹائرڈ 17 ہزار ملازمین کی پینشن حکومت ہی دیتی رہے گی۔
اس وقت پی آئی اے کے پاس 34 جہاز ہیں جن میں سے 18 آپریشنل ہیں جبکہ بولی سے پہلے مزید 2 جہاز آپریشنل ہو جائیں گے، مزید نئے جہاز بھی خریدے جائیں گے جن میں وائی فائی سمیت جدید سہولیات بھی ہوں گی۔
ایسا ہوتا نظر تو نہیں آرہا، ڈاکٹر فاروق ستار
چیئرمین کمیٹی ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ پی آئی اے کے اوپر اس وقت 200 ارب کا قرض ہے جبکہ کل اثاثوں کی مالیت 155 ارب روپے ہے یعنی جو کوئی پی آئی اے خریدے گا اسے 45 ارب کا نقصان سے شروع کرنا ہے۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کی نجکاری، منصوبہ بندی یا ضرورت؟
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ پھر اسے حکومت کو ٹیکس دینا ہے، قرض اتارنا ہے، ملازمین کو تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن یہ سب ہوتا بہت آسان نظر نہیں آ رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے 3 سالوں میں پی آئی اے کو چلانے کے لیے 200 ارب روپے کی انویسٹمنٹ کی بھی ضرورت ہو گی۔