سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر آئینی عدالت بنی تو کئی ججز استفعے دے دیں گے۔
نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 8 سے 10 ایسے ججز ہیں جن کا مسئلہ ملازمت نہیں، یہ عالمی معیار کے ججز ہیں، ان کے لیے ماہانہ 10 سے 15 لاکھ روپے کمانا مشکل نہیں، وہ ایسی سیشن عدالتوں اور ہائیکورٹس میں نہیں بیٹھیں گے، بہت سے ججز اپنے عہدوں سے استفعے دے دیں گے،جب وکیلوں کو پتا چلے گا کہ ان کے پیشے کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے تو ان کے پاس تحریک چلانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم کا مقصد عمران خان کو فوجی عدالتوں سے سزا دلوانا ہے،,سلمان اکرم راجا
فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی آئینی ترمیم میں سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز نہیں ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو جس نے بھی اس کا مشورہ دیا ہے بالکل غلط مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایک عوامی پارٹی ہے جس کے خلاف 2 سال سے سیاسی لڑائی ہورہی ہے، ایک طبقہ جو اس لڑائی میں شامل نہیں تھا، اب انہیں بھی اس لڑائی میں شامل ہونا پڑے گا، وکیلوں اور ججز کو تحریک چلانا ہی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی مجوزہ آئینی ترمیم میں بہت سے مسائل ہیں، شق 199 کے تحت اگر کوئی کہے کہ معاملہ ملکی سلامتی کا ہے تو درخواست خارج کی جاسکے گی، دوسری ترمیم یہ کی جارہی ہے کہ ہائیکورٹس کے ججز کی ہر سال کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا اور ذرائع کی رپورٹس پر بھی انہیں گھر بھیجا یا ان کا تبادلہ کیا جاسکے گا۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی عدالت کا چیف جسٹس کون ہوگا؟ رانا ثنااللہ نے بتا دیا
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ایسی ترامیم کے بعد جب درخواستیں ہی خارج ہونے لگیں گی تو کونسا وکیل اپنی پریکٹس کرسکے گا اور جو جج شق 199 میں جرأت دکھائے گا اسے گھر بھیج دیا جائے گا یا اس کا تبادلہ کردیا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ ہائیکورٹ تو انہوں نے ختم کردی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ اب سپریم کورٹ ختم کرکے آئینی عدالت لارہے ہیں۔ آئینی عدالت کیا ہے، اس بارے میں بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ فرض کریں آپ کی تنخواہ پر عائد کردہ ٹیکس کا کیس ہے، آپ عدالت جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حقائق اور آئین کے خلاف ہے، تو ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ سپریم کورٹ جائیں گے یا آئینی عدالت جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی اور ہم اپنا اپنا مسودہ بنا رہے ہیں، چاہتے ہیں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہوجائے، مولانا فضل الرحمان
انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ کے علاوہ دنیا کے کسی ملک میں آئینی عدالت کا وجود نہیں ہے، آئینی عدالت کے قیام کے بعد پاکستان دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں 2 سپریم کورٹس اور 2 چیف جسٹسز ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 35 ملکوں میں قائم آئینی عدالتوں کی مثالیں دے رہی ہے، درحقیقت وہ سول لا کورٹس ہیں جو ہماری عدالتوں سے بالکل مختلف ہیں۔