بی وائی ڈی الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی چینی کمپنی ہے۔ اس کو ٹیسلہ کلر بھی کہا جانے لگا ہے۔ بی وائی ڈی سنہ 2023 میں 22 فیصد مارکیٹ شیئر کے ساتھ ٹیسلہ کے 13 فیصد سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ اس بی وائی ڈی نے پاکستان میں کاریں بنانے کا پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان میں بی وائی ڈی نے گاڑیاں بنانے کے لیے پارٹنرشپ حبکو کے ساتھ کی ہے۔ حبکو پاکستان میں بجلی بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ حبکو نے سی پیک کے تحت پاور پروجیکٹ میں بھی چینی کمپنیوں کے ساتھ شراکت کی ہے۔ حبکو کی قائم کر دہ میگا موٹر بی وائی ڈی کے ساتھ مل کر پورٹ قاسم میں پلانٹ لگائے گی۔
اس سب سے آپ کیا سمجھے؟ چین کی الیکٹرک کمپنی پاکستان میں وج گج کر آ رہی ہے۔ گاڑیاں تو بنائیں گے ہی، لیکن حبکو کو دیکھتے ہوئے یہ یقینی ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ کے لیے انفراسٹرکچر بھی بھی تعمیر ہو گا۔ حبکو کا پلانٹ سنہ 2026 میں لگے گا۔ سنہ 2030 تک ایک لاکھ گاڑیاں فروخت کرنے کا ٹارگٹ سیٹ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برکس میں پاکستان کی شمولیت اور برکس کی اپنی کرنسی آنے کی خبریں
اس حوالے سے تفصیلات آپ گوگل کریں اور خود پڑھیں۔ کالم کو اشتہار بنانے کا ارادہ نہیں ہے۔ امریکا اور یورپ میں چینی الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ یو ایس کامرس سیکریٹری جینا ریمونڈو نے نئی پابندیوں کے حوالے سے بھی بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر جو گاڑیوں میں استعمال ہوتے ہیں ان کو چینی روسی کمپنیوں کے لیے بین کرنے تجویز ہے۔
ٹیسلہ نے امریکی حکومت سے مزید ٹیرف لگا کر چینی کمپنی کے خلاف مدد چاہی ہے۔ انڈیا میں چینی آٹو انڈسٹری کو مودی سرکار نے ایک طرح سے بلاک کیا ہے۔ سرمایہ پرافٹ کے پیچھے جاتا ہے۔ نئی مارکیٹ اور گاہک ڈھونڈتا ہے۔ ہم 25 کروڑ کی صارف مارکیٹ ہیں۔
مڈل ایسٹ سے ہمارے دوست برادر ملکوں نے ہمیں نقشے بنا کر سمجھایا ہے کہ ہم کیا ہیں۔ 25 کروڑ میں اچھی خاصی تعداد ایسی بھی ہے جن کی قوت خرید امریکا یورپ جیسی ہے۔ ہمارے ہی ملک کے کچھ شہر ایسے ہیں جہاں فی کس آمدنی ان ملکوں جیسی ہے جو امیر سمجھے جاتے ہیں۔ اس مارکیٹ کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔
کواڈ ایک 4 ملکی اتحاد ہے۔ اس میں انڈیا جاپان آسٹریلیا اور امریکا شامل ہیں۔ یہ اتحاد چین کے مدمقابل ہے۔ اس بار اس اتحاد نے اپنا سربراہ اجلاس امریکی صدر جو بائیڈن کی ریاست میں رکھا جہاں سے وہ الیکشن لڑ کر پہلی بار امریکی ایوانوں میں پہنچے۔ بائیڈن نے کواڈ سربراہوں کو اپنے گھر پر دعوت بھی دی۔ امریکی صدر کے علاوہ جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیڈا بھی ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس طرح کواڈ کا سربراہ اجلاس فیئر ویل بھی تھا۔
مزید پڑھیے: چِپ اور سیمی کنڈکٹر،ایک ایسی فیلڈ جو ہمارے لیے معیشت کی روٹھی محبوبہ منا سکتی ہے
کواڈ اجلاس میں لیڈر لوگ نے چین مخالف اتحاد ہونے کا تاثر زائل کرنے کی کوشش کی۔ جو بائیڈن نے اجلاس کے شروع میں نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جیک سالیوان کے دورہ بیجنگ کا ذکر کیا۔ بائیڈن کا کہنا تھا ہم نے چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں کچھ پیشرفت کی ہے۔ بائیڈن یہ تاثر نہیں بنانا چاہتے تھے کہ کواڈ چین مخالف کوئی اتحاد ہے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے بھی محتاط انداز میں بات کی۔ البانیز کا کہنا تھا کہ ’انڈو پیسیفک میں ہمیں امن اور استحکام برقرار رکھنا، سمجھداری کے ساتھ مسابقت اور تنازعات کو ڈیل کرنا ہے‘۔
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ’ہم کسی کے بھی خلاف نہیں ہیں، ہم ایک رولز بیس انٹرنیشنل آرڈر کو سپورٹ کرتے ہیں، سب کی علاقائی حدود اور سالمیت کا احترام کرتے ہیں اور تنازعات کا پر امن حل چاہتے ہیں‘۔ کوئی بھی لیڈر چین کے خلاف پبلک میں کچھ کہنا نہیں چاہتا تھا۔ میڈیا فیڈ بند ہونے کے بعد جو بائیڈن نے چین کے حوالے سے جو کچھ کہا اس کی آڈیو میڈیا کو لیک ہو گئی۔
میڈیا فیڈ بند ہونے کے بعد بائیڈن چین سے ہی بات شروع کرتے ہوئے کہتے پائے گئے کہ ’چینی صدر شی جن پنگ اپنے اندرونی معاشی حالات کی طرف متوجہ ہیں، چین کے اندر مسائل کو کم کرنے پر ان کا فوکس ہے، شی کو سفارتی فرنٹ پر کچھ اسپیس اور وقت درکار ہے، اس کے بعد شی چینی مفادات کے لیے جارحانہ پیش قدمی کریں گے’۔
بائیڈن نے مزید کہا کہ ’چین جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، سارے ریجن میں ہمارا امتحان لے رہا ہے، مختلف فرنٹ کھول رکھے ہیں جیسے ٹیکنالوجی اور اکانومی، ہمارا خیال ہے کہ اس شدید تناؤ میں ہماری پالیسی میں بھی شدت ہونی چاہیے‘۔ یہ سب میڈیا کو جاری ہونے پر چین کا ذکر نہ رکنے والا معاملہ بے فائدہ ہی رہ گیا۔
مزید پڑھیں: ڈالر گرنے اور دنیا کی کرنسی مارکیٹ اوپر نیچے ہونے کو ہے ؟
چین مخالف نہ ہونے کا جو تاثر بنایا گیا تھا وہ بھی دھواں ہو گیا۔ امریکی ڈیموکریٹس نے بائیڈن کو امیدوار نہ بنا کر اپنے لیے اچھا ہی کیا۔ ورنہ اس بزرگ نے اپنی باتوں اور بھولنے سے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا تھا۔
ہمارے لیے اس سب میں خبر یہ ہے کہ چین کے ساتھ جب اس جذبے کے ساتھ مخالفت ہو رہی ہے۔ تو چینی کمپنیاں بھی تو کچھ کریں گی۔ پاکستان آ رہی ہیں تو اپنے فائدے کے لیے آ رہی ہیں۔ اب یہاں پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ کا امتحان ہے۔ کپتان کے کہے کی کچھ تو لاج رکھیں۔ وہ آپ کو کرپٹ وغیرہ کہہ کہہ کر اندر پہنچ گیا۔ کچھ تو بزنس والی اپنی مہارت استعمال کریں، بڑے ملکوں کی اس تجارتی لڑائی میں اپنے لیے اور ہم وطنوں کے لیے فائدے حاصل کریں۔ یہ فائدے سب سے لیں امریکا سے بھی یورپ سے بھی جاپان سے بھی۔ اتنا تو کر لیں گے یا یہ بھی نہیں ہونا آپ سے؟