نواب زادہ نصراللہ خان کو پہلی بار لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں دیکھا۔ وہ کسی سیمینار سے خطاب کرنے آ رہے تھے۔ سر پر وہی سرخ رومی ٹوپی تھی جسے ہم اپنے بچپن ہی سے اخبارات میں دیکھتے چلے آ رہے تھے۔ فرق بس اتنا تھا اخبار میں چھپی تصویر میں وہ سیاہ رنگ کی نظر آتی تھی، یہ سرخ رنگ کی تھی۔ نواب زادہ مرحوم نے سیمینار سے خطاب کیا، حسب معمول جمہوریت کی بنیاد پر حکمرانوں کے غلط طرز عمل پر تنقید کی، انھیں درست روش اختیار کرنے کی نصیحت کی۔ ان کے خطاب اور ان کی گفتگو میں ایسی تہذیب اور درد مندی تھی جو آج ہماری سیاست میں کہیں نظر نہیں آتی۔
نواب زادہ مرحوم سے ہر حکمران کو ایک ہی شکوہ رہتا تھا کہ وہ ہمیشہ اپوزیشن ہی کرتے ہیں، کبھی حکومت کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ قیام پاکستان سے پہلے مجلس احرار میں تھے، بعدازاں مسلم لیگ میں شامل ہوئے لیکن جلد ہی اس کے لیڈروں سے بدظن ہوئے۔ آنے والے ادوار میں وہ ہمیشہ اپوزیشن ہی کے سٹیج پر نظر آئے۔ اگر وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی جدوجہد کر رہے تھے، اس جدوجہد کے نتیجے میں اقتدار کا پھل پیپلزپارٹی کی گود میں گرا تو نواب زادہ مرحوم اپنی جگہ پر کھڑے رہے، اقتدار کی ٹرین پر چڑھنے والے انھیں آوازیں دیتے رہے لیکن نواب زادہ مسکراتے ہوئے انھیں ہاتھ ہلا کر دعا دیتے رہے اور اپنی جگہ پر حزب اختلاف ہی میں کھڑے رہے۔ نواب زادہ مرحوم اور مسلم لیگ ن اپوزیشن میں اکٹھے ہوئے، پھر اقتدار ن لیگ کے حصے میں آیا تو نواب زادہ مرحوم اپنی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ اپوزیشن کے پلیٹ فارم پر ہی کھڑے رہے۔
ایسا نہیں ہے کہ نواب زادہ نصر اللہ خان نے قسم اٹھا رکھی تھی کہ وہ ہمیشہ اپوزیشن ہی کریں گے، اپوزیشن کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔ وہ ایک سیاست دان تھے۔ ہر سیاست دان ملک و قوم کی ڈرائیونگ سیٹ حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ نواب زادہ صاحب کا خواب تھا کہ ملک کو خالص جمہوری انداز میں چلنا چاہیے۔ ساری عمر اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ اس کے لیے وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
نواب زادہ مرحوم کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو بھی بطور اپوزیشن رہنما چلتے رہے۔ یہ ایوب خان کے دور کا اواخر تھا۔ جب بھٹو برسراقتدار آئے تو ان کی راہیں نواب زادہ سے جدا ہوگئیں۔ سبب یہی تھا کہ وہ نواب زادہ کے معیار پر پورا نہیں اتر رہے تھے، چنانچہ نواب زادہ نصراللہ خان اپوزیشن کے ٹرک سے نیچے نہ اترے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار اقتدار میں بھی یہی کچھ ہوا۔
نواب زادہ اپنے اصول اور جمہوری طرز عمل پر پکے تھے۔ اس قدر عالی شان اور پختہ فکر کہ غیر جمہوری شخصیت کے اوپلے بھی اپنے حقہ میں نہیں دھرتے تھے۔ ان کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ 1969ء میں وہ ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔ اسی اثنا میں ایوب خان نے ایک گول میز کانفرنس اسلام آباد میں بلائی۔ نواب زادہ اس میں شرکت کے لیے جہاز پر سوار ہوئے تو ان کا نہ صرف حقہ ہمیشہ کی طرح ان کے ساتھ تھا بلکہ اوپلے بھی ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسلام آباد میں اوپلے دستیاب نہیں ہوں گے؟ انھوں نے کہا کہ وہ آمر کے اوپلے بھی استعمال نہیں کرنا چاہتے۔
نواب زادہ نصراللہ خان کا یہ جملہ محض ایک لطیف جملہ ہی نہیں تھا بلکہ اپنے اصولوں میں ان کی پختگی کا غماز تھا۔ انہوں نے کبھی غیر جمہوری حکمران کو لفٹ نہیں کرائی، چاہے وہ وردی والا ہو یا بغیر وردی والا۔
محض دو روز قبل، ستائیس ستمبر کو نواب زادہ نصراللہ خان کا یوم وفات تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ہمارے جمہوریت پسند سیاست دانوں میں سے کسی ایک کو بھی نواب زادہ کی یاد نے نہ ستایا۔
ستمبر کے آخری عشرے میں ہی ایک دوسری جمہوریت پسند شخصیت کا انتقال ہوا۔ محض ایک ہفتہ قبل بائیس ستمبر کو سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یوم وفات تھا۔ وہ بھی پاکستان کے کسی بھی جمہوری سیاست دان سے زیادہ جمہوری تھے۔ اس باب میں کون ہے جو ان کی ہمسری کرسکا ہو۔
عرصہ قبل خوش قسمتی سے مجھے سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ایک تحریر کا ایک ٹکڑا دیکھنے کو ملا جو بہت مقبول ہو رہا تھا۔ یہ ان کی کتاب ‘ تفہیمات'( جلد سوم) میں شامل ہے۔ میں نے غور کیا تو عشروں پہلے لکھی جانے والی یہ تحریر پاکستان ہی نہیں دنیا کے پر مسلمان معاشرے میں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔
مولانا مودودی لکھتے ہیں:
‘ مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اُن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں’ بلکہ اب اُن کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انھی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنا لیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں’ اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں’ بلکہ ہرفوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔
ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیشتر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کاکوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیراندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروں پر اُلٹ پڑتی ہے۔’
اب ذرا اپنے ملک کی تاریخ کی طرف دھیان دیں اور بتائیں کہ مولانا مودودی نے کس قدر صحیح معنوں میں جرنیلوں، ان کی حرکتوں اور ان کے طریقہ واردات کو سمجھ لیا تھا۔ انہوں نے ایوبی آمریت کے خلاف جو بے مثال جدوجہد کی تھی، وہ تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھی گئی ہے۔
کاش! سید ابوالاعلیٰ مودودی اور نواب زادہ نصراللہ خان ایسی پختہ فکری اور کمٹمنٹ ہمارے آج کے سیاست دانوں میں بھی پیدا ہوجائے۔
آج کل ہمارے ہاں جو ‘جمہوریت پسند’ پائے جاتے ہیں، وہ فوج کے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت اقتدار میں آتے ہیں۔ جب فوج انھیں اٹھا کر ایوان اقتدار سے باہر دور پھینکتی ہے تو وہ فوج ہی سے گلہ شکوہ کرتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ فوج ہی سے مذاکرات کی بھیک مانگتے ہیں۔ پھر اپنے اس عمل کو مبنی بر حقائق قرار دیتے ہیں۔
انھیں جمہوریت تب یاد آتی ہے جب انھیں ایوان اقتدار سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ ورنہ وہ ’ ایک صفحہ‘ پر موجود ہونے کا کہہ کر دراصل غیر جمہوری طاقت کی گود میں فیڈر پی رہے ہوتے ہیں۔