سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے رجسٹرارسپریم کو ایک اور خط لکھا ہے جس میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی درخواست کی سماعت کرنے والے 4 رکنی بینچ پراپنی غیرحاضری کو جواز بناتے ہوئے اہم اعتراضات اٹھا دیے۔
یہ بھی پڑھیں:آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کا حکم نامہ جاری، رجسٹرار سپریم کورٹ کو جسٹس منیب اختر کو راضی کرنے کی ہدایت
جسٹس منیب اختر نے اپنے ایک اور خط میں کیس کی سماعت کرنے والے 4 رکنی بینچ کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔
خط میں جسٹس منیب اختر نے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت 5 رکنی بینچ کے سامنے مقرر کی گئی تھی لیکن اس کی بجائے 4 ججوں نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ پیر کی سماعت کا تحریری حکم انہیں بھیجا گیا تھا جس پر 4 ججوں کے دستخط تھے۔ انہوں نے کہا کہ آرڈر میں ان کا نام بھی درج تھا لیکن دستخط نہیں کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں:آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس: جسٹس منیب اختر کا سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں شمولیت سے انکار
انہوں نے خط میں کہا کہ جن 4 ججوں نے کیس کی سماعت کی وہ میرے لیے قابل احترام ہیں لیکن پیر کو ہونے والی سماعت قانون اور قواعد کے مطابق نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وہ پیر کی سماعت کے تحریری حکم کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیر کو ہونے والی سماعت کا حکم عدالتی حکم نہیں ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں آرٹیکل 63 اے پر نظرثانی درخواست کی سماعت کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں:جسٹس منیب اختر حصہ نہیں بنتے تو نیا بینچ تشکیل پا سکتا ہے؟
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، جمال خان مندوخیل اور مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کرنی تھی تاہم جسٹس منیب اختر نے خود کو بینچ سے خارج کردیا۔
جسٹس منیب نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو خط لکھ کر بینچ کا حصہ نہ بننے کی وجوہات بیان کی ہیں۔ خط میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو کے بارے میں اپنے تحفظات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منیب کو چھوڑ کر 4 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
ایس سی بی اے نظرثانی درخواست
واضح رہے کہ 2022 میں سپریم کورٹ بار نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی آرڈیننس میں عدالت کی رائے پر نظر ثانی کی درخواست کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح غلط کی، مراد علی شاہ
بار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ صدارتی آرڈیننس میں اختلاف رائے رکھنے والے ارکان کے ووٹوں کی گنتی نہ کرنے کے حوالے سے اپنی رائے کے پیراگراف پر نظر ثانی کرے اور اس رائے کو واپس لے۔ سپریم کورٹ بار نے عرضی میں کہا کہ پارٹی چھوڑنے والے ارکان کے ووٹوں کی گنتی نہ کرنا آئین کی روح کے خلاف ہے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی رائے آئین میں مداخلت کے برابر ہے۔
سپریم کورٹ بار نے اپنی عرضی میں مزید کہا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارٹی چھوڑنے والے ارکان کو صرف عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس کیس میں وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا تنازعات سے بھرپور دور اور ان کے متنازع فیصلے
سپریم کورٹ نے 17 مئی کو آرٹیکل 63 اے کی اپنی تشریح میں اعلان کیا تھا کہ منحرف ارکان کے ووٹوں کی پارلیمنٹ میں گنتی نہیں کی جائے گی۔
اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 3-2 کی اکثریت سے یہ فیصلہ سنایا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں وفاداریاں تبدیل کرنے سے جمہوریت کی سالمیت کو نقصان پہنچتا ہے۔