ایس سی او کانفرنس جیسا کچھ لوگوں کی خواہش تھی، ملتوی ہو سکی اور نہ منسوخ۔ رکن ملکوں کی اولوالعزم قیادت اور ان کی قیادت پاکستان کے شانے کے ساتھ شانہ ملا کر کھڑی رہی۔ بالآخر بھارت بھی اپنا طرز عمل بدلنے پر مجبور ہو گیا۔ بھارت نے اعلان کر دیا ہے کہ اس کے وزیر خارجہ جے شنکر ایس سی او سربراہان حکومت کی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
اس مرحلے پر ایک پرانا واقعہ یاد آتا ہے۔ آںجہانی اٹل بہاری واجپائی صاحب کا تعلق بھی بھارتیہ جنتا پارٹی سے تھا۔ 1999ء میں وہ پاکستان کے لیے عازم سفر ہوئے تو کہا گیا کہ ان کے یہاں آنے کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان کو بھارت نے تسلیم کر لیا۔ اپنے دیس میں تو انہوں نے اس احمقانہ دلیل کا جانے کیا جواب دیا لیکن پاکستان پہنچنے کے بعد کمال کا ایک کام کیا۔ وہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے اقبال پارک پہنچے اور مینار پاکستان کے سایے تلے کھڑے ہو کر انھوں نے کہا:
‘کہا جاتا تھا کہ اگر میں مینار پاکستان پر جاؤں گا تو پاکستان کے بننے پر مہر لگ جائے گی۔ ارے بھائی، پاکستان بن چکا، یہ حقیقت ہے اور اسے اب کسی مہر کی ضرورت نہیں۔’
یہ بھی پڑھیں:صدر ممنون حسین، صدر الہام علی ایو اور ایف 17 تھنڈر طیارے
ایک اور تبصرے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تو میری مہر کے بغیر بھی چل رہا ہے۔ اسے کسی کی مہر کی ضرورت ہی کیا ہے؟ وہ زمانہ بیتا، اس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ بھارتی قیادت نے پاکستان کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا۔ مجال ہے کہ اس کے کسی راہ نما نے پاکستان کا رخ کیا ہو۔ سبب کیا تھا؟ اس ضمن میں بھارت سے کئی آوازیں سننے کو ملیں، ان سب کا مفہوم یہی تھا کہ پاکستان کا ہمارے ساتھ کیا مقابلہ، اس کی معیشت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ وہ اپنا وجود ہی برقرار رکھ لے تو بڑی بات ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان کے ضمن میں 2 شاخہ حکمت عملی پر عمل پیرا تھا۔ اول پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کے لیے تخریبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھنا اور دوم پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں تنہا کرنا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بھارت کو پاکستان کے اندر سے یہ کمک میسر آئی۔
بھارت کو پاکستان کے اندر سے کمک کیسے میسر آئی؟ یہ سوال اہم بھی ہے اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ ناقابل یقین بھی ہے۔ اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کو اندر سے کمزور کیا گیا۔ یہ پاکستان کو کمزور کرنا ہی تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنی حکومت بنانے کے بعد معیشت کے استحکام کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد اسے توڑ دیا۔ پی ڈی ایم اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے معیشت کے استحکام کے لیے کام کیا تو اسے نقصان پہنچایا گیا۔ آئی ایم ایف کو خطوط لکھے گئے اور اس کے دفتر کے باہر مظاہرے کیے گئے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ نہ کرے۔ یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ‘دی اکنامسٹ’ کو لکھنا پڑا کہ پاکستان کی معیشت جب سنبھلنے لگتی ہے، عمران خان اسے دھکا دے دیتے ہیں۔
خارجہ محاذ پر او آئی سی میں تقسیم پیدا کر کے پاکستان کے بااعتماد دوستوں کو ناراض کیا گیا۔ چین کے خلاف باقاعدہ پروپیگنڈا کیا گیا اور اقتصادی راہداری پر کام روک دیا گیا۔ یہ باتیں تو وہ ہیں جو کسی نہ کسی طرح سامنے آگئیں، کچھ باتوں پر اب بھی اخفا کا پردہ پڑا ہوا ہے، لیکن جب ایسی باتیں سامنے آئیں کہ انہوں نے دوست ملکوں کے جہازوں پر بیٹھ کر کس قسم کی باتیں کہیں اور ان کی سلامتی کے بارے میں کیسی کیسی لوز ٹاک کی تو حقیقت یہ ہے کہ زلزلہ آ جائے گا۔
ایک طرف یہ طرز عمل تھا دوسری طرف اس حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے اندر کھڑے ہو کر قومی ایئر لائن کے بارے میں ایسے ریمارکس دیے گئے کہ پی آئی اے کا بین الاقوامی کاروبار ہی ختم ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں:مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ
اب یہ حقائق سامنے آ رہے ہیں کہ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جس طرح اپنی یونین کا حصہ بنایا، اس میں سہولت کاری کی گئی۔ اس کے علاوہ کئی بار یہ کھلے عام کہا گیا کہ ملک 3 حصوں میں تقسیم ہو جائے گا اور پاکستان اپنے ایٹمی اثاثے سرنڈر کر سکتا ہے۔
یہی وہ عوامل تھے جنہوں نے پاکستان کو اندر سے کمزور کیا اور دشمن نے خیال کیا کہ اب اسے پاکستان کے خلاف کسی سرگرمی کی ضرورت نہیں رہی، اسے تنہا کر کے بھی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بھارت نے یہ حکمت عملی بہت پہلے سے اختیار کر رکھی تھی، لیکن پی ٹی آئی کے زمانے میں اسے اس کے ثمرات بھی ملنے لگے۔ کیا ان مقاصد کے لیے پی ٹی آئی کی قیادت اور بھارت کے درمیان کوئی ملی بھگت تھی؟ ایسی باتوں کے بارے میں یقین کے ساتھ تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن قرائن یہی کہتے ہیں اور اگر اکبر ایس بابر کی اطلاع پر توجہ دی جائے تو پھر بھارتی شہریوں کی طرف سے پی ٹی آئی کے لیے فنڈنگ کی وجہ بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اپنے چٹ پٹے تبصروں کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں بڑی معنی خیز بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل یا کوئی اور دشمن پاکستان پر حملے کی جرأت تو نہیں کر سکتا، لیکن اس وقت پاکستان پر اندر کی طرف سے حملہ کرایا جا رہا ہے۔ ان کا اشارہ ایس سی او سربراہان حکومت کی کانفرنس کے موقع پر پی ٹی آئی کی طرف سے ڈی چوک پر دھرنے اور اسلام آباد کی طرف کے پی حکومت کی طرف سے مارچ کی طرف تھا۔
پاکستان کو اندر اور باہر سے کمزور کرنے کی یہ کوششیں کام یاب نہ ہو سکیں تو بھارت کے پاس اب کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا تھا کہ وہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کر سکتا۔ ایس سی او میں بھارت کی شرکت خوش آئند ہے۔ اس سے اگر دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ تنازعات کے خاتمے کے لیے گفتگو کا دروازے نہ بھی کھلے تو بھی طویل عرصے سے جاری سرد مہری میں کمی آئے گی، جو کئی امکانات کے دروازے کھول سکتی ہے۔ اس سرد مہری کی وجہ سے ایس سی او کے پلیٹ فارم سے خطے میں تعاون کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں، انہیں دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نریندر مودی اور ان کی حکومت بھی بالآخر اسی نتیجے پر پہنچ چکی ہے جس پر پہنچ کر آںجہانی اٹل بہاری واجپائی لاہور تشریف لائے تھے یعنی ہم مانیں نہ مانیں پاکستان کی مہر کو تو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل سے ملنے والی تازہ گواہی
اسلام آباد ایس سی او کے موقع پر یہ پیشرفت یقیناً خوش آئند بھی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف کی اقتصادی اور خارجہ پالیسی کی کام یابی کا منھ بولتا ثبوت بھی، جس پر وہ، ان کی حکومت اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار یقیناً داد کے مستحق ہیں لیکن پی ٹی آئی کے دانش مند میڈیا مینیجر اپنی خداداد دانائی کی برکت سے پاکستان کے نقطہ نظر سے اس سنہری موقع پر بھی بدمزگی پیدا کرنے میں کامیاب رہے اور بیرسٹر سیف نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر صاحب کو ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے دھرنے سے خطاب کی دعوت دے ڈالی۔ ہمیشہ کی طرح وقت گزرنے کے بعد اس جماعت کے دانشمندوں کی سمجھ میں آیا کہ ان سے غلطی نہیں بلنڈر ہو گیا ہے۔ اب معذرت خواہی اور ڈیمیج کنٹرول کا سلسلہ جاری ہے لیکن وقت گزرنے کے بعد کیا ہو سکتا ہے۔ نقصان تو ہو چکا۔