چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کی کال دی گئی تھی، اس دوران 4 اکتوبر کو ہونے والے احتجاج میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپوں کا سلسلہ 2 روز تک جاری رہا۔
دوسری جانب لاہور میں بھی تحریک انصاف کے ممکنہ احتجاج کی روک تھام کے لیے پولیس نے کئی اہم مقامات کو کنٹینرز لگا کر بند کیے رکھا۔
یہ بھی پڑھیں پی ٹی آئی بلوچستان کے صدر اور سیکریٹری جنرل سمیت اہم عہدوں پر نئی تقرریاں
بات کی جائے اگر بلوچستان کی تو دارالحکومت کوئٹہ میں ہفتہ کی شب پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی قیادت نے پریس کانفرنس کی، تو اس دوران پولیس نے پارٹی سیکریٹریٹ کو تالے لگا کر پریس کانفرنس ختم کروا دی، اس کے علاوہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی سالگرہ منانے والے کارکنان سے کیک لے کر انہیں بھی منتشر کردیا گیا۔
حال ہی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ تحریک تحفظ آئین محمود خان اچکزئی نے کہاکہ احتجاج کو بلوچستان تک وسعت دیں گے، اگر ہماری باتوں پر کسی نے غور نہ کیا تو عوام اپنا راستہ خود متعین کرے گی۔
احتجاج کو وسعت دینے سے متعلق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل رحیم زیارتوال نے کہاکہ فارم 47 پر مبنی ایوان کی چھٹی کروانا ہر سیا سی جماعت کی ذمہ داری ہے اور اگر یہ ایوان یوں اپنی مدت پوری کرنا چاہتا ہے تو پاکستان کے ہر ضلع میں اس حکومت کے خلاف احتجاج ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی اس بات کو واضح کر چکے ہیں اس احتجاج کو وسعت دی جائےگی اور اس جدوجہد کو مختلف صوبوں اور اضلاع تک پھیلائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج سے متعلق مرکزی قیادت کا مشاورتی اجلاس ہوگا جس میں آئندہ کا لائحہ طے کیا جائےگا۔
ایک سوال کے جواب میں رحیم زیارتوال نے کہاکہ احتجاج کے لیے بڑی تعداد میں لوگ ہمارے ساتھ موجود ہیں، پشتون اضلاع میں تحریک انصاف اور پی کے میپ کے کارکنان شریک ہوں گے جبکہ بلوچ آبادی والے اضلاع میں تحفظ آئین کے دیگر اتحادیوں کے کارکناں بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔
سیا سی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بلوچستان میں تحریک تحفظ آئین کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پشتون اضلاع میں پی کے میپ مؤثر انداز میں لوگوں کو اکٹھا کرنے میں ناکام رہے گی کیونکہ صوبے میں قوم پرست جماعتیں اپنا سیا سی اثر ورسوخ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کھو رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صوبے میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے جس کی وجہ سے پی کے میپ کی سیاسی صورتحال ایک دہائی قبل والی نہیں رہی۔
بات کی جائے اگر پاکستان تحریک انصاف کی تو پی ٹی آئی کا وجود بلوچستان میں صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، کوئٹہ میں تحریک انصاف کے چاہنے والے لوگ تو موجود ہیں لیکن مؤثر قیادت اور پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان احتجاج اور مظاہروں میں شریک نہیں ہوتے البتہ سوشل میڈیا پر بلوچستان میں بھی تحریک انصاف دیگر صوبوں کی طرح مقبول ہے۔
بلوچستان میں تحریک انصاف کی جڑیں مضبوط نہ ہو نے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارٹی کے سینیئر رہنما قاسم خان سوری تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو نے کے بعد سے منظرعام سے غائب ہیں۔
یہ بھی پڑھیں کوئٹہ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی پریس کانفرس کے دوران پولیس کی انٹری، کارکنان فرار
9 مئی کو بھی کوئٹہ میں تحریک انصاف کے کارکنان اس نوعیت کا احتجاج نہیں کرسکے تھے جس طرح ملک کے دیگر صوبوں میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کیا گیا، اس تمام صورتحال کے پیش نظر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تحریک تحفظ آئین اگر بلوچستان میں احتجاج کرتی ہے تو اس کی نوعیت اتنی سنجیدہ نہیں ہوگی۔