حکومت نے آئینی عدالتوں کے قیام سمیت جوڈیشل پیکج لانے کے لیے آئینی ترمیم تیار کر رکھی ہے۔ اس ترمیم پر پہلے تو حکومتی اتحادیوں کو بھی تحفظات تھے، تاہم اب وہ تحفظات کافی حد تک دور کردیے گئے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کے مطابق، حکومت نے اس ترمیم کے لیے وکلا برادری اور بار کونسل کو بھی اعتماد میں لیا ہے لیکن بیشتر وکلا تنظیمیں اب بھی اس ترمیم کے خلاف ہیں۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کون سی وکلا تنظیمیں اب بھی اس آئینی ترمیم کی مخالف ہیں اور کون سی تنظیمیں اس کی حمایت کا اعلان کرچکی ہیں۔
وکلا کنونشن میں کیا فیصلہ ہوا؟
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ روز آل پاکستان وکلا کنونشن کا انعقاد ہوا، جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار اور اسلام آباد بار کونسل کی جانب سے جوڈیشل پیکج اور آئینی عدالت کے قیام کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ اس کنونشن میں اسلام آباد کی تینوں وکلا تنظیموں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے آرٹیکل 63 اے نظرثانی درخواست واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مجوزہ آئینی ترمیم کا ساتھ دینے والوں پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے، وکلا کنونشن میں جوڈیشل پیکج کے خلاف قرارداد منظور
پاکستان بار کونسل کے 6 ممبران نے مجوزہ آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھی ہے۔ ان درخواست گزاروں میں سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری اور صدر ILF اشتیاق اے خان بھی شامل ہیں۔
قبل ازیں، اسلام آباد بار کونسل کے چیئرمین ڈسپلنری کمیٹی علیم عباسی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم صرف اس آئینی ترمیم کو مسترد نہیں کرتے بلکہ اس کو روکنے کے لیے مزاحمت بھی کریں گے، مخصوص شخصیات، مخصوص سیاسی جماعتوں اور بدنیتی پر مبنی ترامیم کی جارہی ہیں، ان ترامیم کے بعد سپریم کورٹ کے پاس سیشن جج سے زیادہ کا اختیار نہیں ہوگا، 6 ججز کا خط پسند نہیں آیا تو ان کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی ترمیم کی جارہی ہے۔
300 وکلا کا سپریم کورٹ کو خط
30 ستمبر کو مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف 300 سے زائد وکلا نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کے نام ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں انہوں نے آئینی ترمیم کے ذریعے نئی عدالتوں کے قیام کی سخت مخالف کی تھی اور ججز کو ان عدالتوں کا حصہ نہ بننے کی تنبیہہ کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد کی وکلا تنظیموں نے آئینی پیکیج مسترد کردیا، مزاحمت کا اعلان
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سابق سیکریٹری راجہ فیصل یونس نے بھی آئینی ترمیم کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ آئینی ترمیم اس وقت کی اشد ضرورت ہے، دنیا بھر میں آئینی عدالتیں موجود ہیں، پاکستان میں بھی ان کا قیام ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے آئینی ترمیم کے حوالے سے کہا کہ اگر آئینی ترمیم صرف آئینی عدالت سے متعلق ہے تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس کی مخالفت نہیں کرے گی، عمران خان اور مولانا فضل الرحمان نے 2006 میں جس میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے اس میں آئینی عدالتوں کا قیام شامل تھا۔