کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم میرے گھر سے لگ بھگ دو کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ باقی پاکستان تو یہاں ہونے والے بین الاقوامی میچز ٹی وی پر دیکھ دیکھ کے تالیاں بجاتا ہے مگر اسٹیڈیم کے اردگرد بسے بیس تا پچیس لاکھ شہریوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں۔ ان کے لیے میچ سیریز کا مطلب زندگی کا تھم جانا ہے ۔
ایک آدھ رستے کے سوا اردگرد کی شاہراہوں پر ضبط شدہ ٹرک اور ٹرالرز صبح تا شام آڑے ترچھے کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ یوں باقی شہر پر ٹریفک کا دباؤ اور بڑھ جاتا ہے۔ نوکری پیشہ لوگوں، کاروباریوں، اسکولی بچوں اور مقامی شفاخانوں سے رجوع کرنے والے مریضوں کے ہاتھ پاؤں پھولے رہتے ہیں۔ وطنِ عزیز کے چہرے پر کرکٹانہ مسکراہٹ بکھیرنے کے لیے سٹیڈیم سے متصل علاقوں کی آبادی کو یہ بلیدان سال میں کئی کئی بار دینا پڑتا ہے۔
اسی اسٹیڈیم کے بازو میں ایکسپو سینٹر بھی ہے جہاں کتابی میلے، تجارتی و صنعتی نمائشیں ہوتی رہتی ہیں۔ البتہ جب ہر دو برس بعد اسلحے کی بین الاقوامی نمائش آئیڈیاز کے نام سے منعقد ہوتی ہے تو گویا ’وختا‘ پڑ جاتا ہے۔ یقیناً اس قومی امیج ساز نمائش سے ہماری ہتھیار سازی کی بڑھتی ہوئی صلاحیت و ساکھ دنیا کو حیرت انگیز لگتی ہوگی مگر لگ بھگ چار دن کی اس نمائش کے دوران نمائشی احاطے کی ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ ایکسپو سینٹر کے آمنے سامنے پڑنے والی سینکڑوں دکانوں کو نمائش کے تمام دنوں میں سیکورٹی ترجیحات کے سبب تالہ بند رکھا جاتا ہے، آس پاس کی عمارتوں پر نشانچی بیٹھے رہتے ہیں۔
رات گئے علاقے کی سڑکیں صرف دو چار گھنٹے کے لیے کھلتی ہیں۔ باقی وقت وی آئی پی نقل و حرکت کے سبب لاکھوں شہریوں کو تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ سوچیے کہ ان گلیوں سے جب سینکڑوں موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بیک وقت گزرنے کے لیے زور لگاتی ہوں گی تو کیسا منظر ہوتا ہو گا۔
چونکہ اس چار روزہ نمائش میں سے تین دن ملکی و غیر ملکی وی آئی پیز کے لیے مختص ہوتے ہیں اس لیے کئی برس پہلے شہریوں کی جانب سے ایک تجویز پیش کی گئی تھی کہ اگر اسلحے کی بین الاقوامی نمائش ملیر چھاؤنی کے احاطے میں منتقل کر دی جائے تو شہریوں کو بھی تھوڑا سکھ مل جائے گا اور اتنے حفاظتی تام جھام کی بھی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔
یہ باتیں مجھے یوں یاد آ رہی ہیں کہ گزشتہ ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او ) کے دو روزہ سربراہ اجلاس کی خاطر اسلام آباد اور راولپنڈی کو تین روز کے لیے بند کرنا پڑا۔دارالحکومت کا بند ہونا تو سیکورٹی مجبوریوں کے سبب سمجھ میں آتا ہے مگر راولپنڈی کس خوشی میں معطل ہوا۔ اسی طرح اسلام آباد میں کانفرنس کے آس پاس کی شاہراہیں اور ریڈ زون کی ناکہ بندی تو پلے پڑتی ہے مگر ریڈ زون سے کہیں باہر دسویں نمبر کے سیکٹرز تک کاروباری و تعلیمی سرگرمیوں کی معطلی چہ معنی دارد؟
اسلام آباد شہر کی لگ بھگ پندرہ لاکھ آبادی پہلے ہی لانگ مارچ یلغاری کلچر اور فیض آباد ٹائپ دھرنوں کے زخم سینک رہی ہے۔
چلیے مسئلہ اسلام آباد اور پنڈی کے مکینوں تک ہی رہے تو بھی سہہ لیا جائے۔ البتہ دونوں شہروں کے مضافاتی دیہات و قصبات کہ جن کے ہزاروں دیہاڑی دار مزدوروں، سرکاری و نجی کارکنوں، ٹرانسپورٹرز اور چھوٹے دکانداروں کی معیشت براہ راست جڑواں شہروں سے جڑی ہوئی ہے، انہیں فول پروف وی آئی پی سیکورٹی کے متاثرین بن کے کتنی نفلوں کا ثواب ہے۔
میزبانی بس یہی تو نہیں ہوتی کہ دیکھو جی! ہم پاکستان کا نام روشن کرنے اور امیج بحال رکھنے کے لیے کیسی کیسی کانفرنسیں، نمائشیں اور کیا کیا انتظامی جتن کر رہے ہیں۔ آدابِ میزبانی میں یہ بھی شامل ہے کہ انتظامات کی زد میں مقامی آبادی کم از کم آئے اور اس کے بنیادی روزمرہ کا پہیہ رواں رہے۔
بڑے بڑے سفارتی و اسپورٹس ایونٹس اور کانفرنسیں اور ممالک میں بھی ہوتے ہیں اور کئی کئی دن جاری رہتے ہیں مگر وہاں کے مقامی لوگوں کو سیکورٹی کے نام پر الگ تھلگ نہیں کر دیا جاتا بلکہ ان سرگرمیوں کا مساوی شراکت دار تصور کیا جاتا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کا سامنا ہے لہذا غیر معمولی حالات میں غیر معمولی سیکورٹی انتظامات کرنے ہی پڑتے ہیں اور شہریوں کی زندگی کا ان سے متاثر ہونا ناگزیر ہے۔
گذارش یہ ہے کہ ہمارے سیکورٹی کلچر میں بفضلِ تساہلی ایک آسان ترین نسخہ یہ دریافت کر لیا گیا ہے کہ شہر بھر کی ناکہ بندی کر دو اور جگہ جگہ سیکورٹی پرسنلز کو اتنی تعداد میں اور ایسے کھڑا کرو کہ وہ دور سے نظر آئیں۔ورنہ سیکورٹی کے ششکے کا کیا مزہ۔
جبکہ دیگر ممالک میں سیکورٹی منصوبہ بندی تمام متعلقہ اداروں کے تعاون کے ساتھ مل کے اس زاویے سے کی جاتی ہے کہ مہمانی کے چکر میں میزبان آبادی کی زندگی اجیرن نہ ہو جائے۔ ان ممالک کے اداروں کا سیکورٹی ڈاکٹرائن یہ ہے کہ اصل سیکورٹی پسِ پردہ ہوتی ہے۔نظر آنے والے سیکورٹی اہل کار بہت زیادہ نہیں ہوتے مگر پسِ پردہ متحرک سیکورٹی کمان کی نگاہ میں ایک ایک نقل و حرکت ہوتی ہے۔
اگر میں دہشت گرد ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ راستے میں بس دس بارہ چوکیاں ہی ہیں تو ظاہر ہے میں ان سے بچنے کے لیے اپنا راستہ بدل لوں گا لیکن اگر مجھے ٹھیک سے یہی اندازہ نہ ہو کہ بظاہر جو چوکیاں نظر آ رہی ہیں ان کے علاوہ بھی کئی مستعد و متحرک سیکورٹی دائرے ہیں جو میری نگاہ سے اوجھل ہیں۔ اس کنفیوژن کے سبب کسی بھی گلی یا سڑک میں گھومنے والے ہر سادہ لباس کے سامنے سے گزر کے اپنے ہدف تک پہنچنا میرے لیے خاصا کٹھن ہو جائے گا۔
اگر آپ مختلف ممالک کے سیکورٹی ڈیٹا کا موازنہ کریں تب آپ کو اندازہ ہو گا کہ جو نظر آنے سے زیادہ نہ نظر آنے والے سیکورٹی انتظامات پر دھیان دیتے ہیں ان کے ہاں اور ہمارے ہاں وارداتوں کا تناسب کتنا کم یا زیادہ ہے۔
سیکورٹی انتظامات میں مہمانوں کے تحفظ اور لاکھوں شہریوں کی روزمرہ زندگی کو مساوی اہمیت دینا راکٹ سائنس نہیں ہے مگر اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بیدار مغزی کے علاوہ اضافی انتظامی محنت کی بھی ضرورت ہے۔
لیکن جہاں عام شہری کی عمومی حیثیت ہی درجہ دوم سے شروع ہوتی ہو۔ وہاں مجرب نسخہ یہی ہے کہ تمام دستیاب وسائل وی آئی پی انتظامات میں جھونک دو، بالکل اس اناڑی ڈاکٹر کی طرح جو مرض کی تشخیص نہ کر پائے تو درجن بھر دوائیں لکھ کے پکڑا دیتا ہے کہ کوئی تو اثر کرے گی۔ جبکہ بااعتماد ڈاکٹر مرض کی تہہ تک پہنچنے کے بعد ایک یا دو تیر بہدف دوائیں لکھ کے دے گا اور اللہ شافی اللہ کافی ہو جائے گا۔