دنیا میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کام ان کے نام سے زیادہ مشہور ہوتا ہے۔ طارق جمیل بھی ایسے لوگوں میں سے تھے۔اپنے وقت میں پاکستان ٹیلی وژن کے بلاک بسٹر سیریلز آنچ ،جنجال پورہ اور راہیں سے کون واقف نہیں؟
ٹی وی کا نیشنل ایوارڈ
پی ٹی وی کی تاریخ میں ’راہیں‘ سب زیادہ ریونیو کمانے والا ڈرامہ سیریل قرار پایا۔ 1997ء میں منشا یاد کا پنجابی ناول ’ٹاواں ٹاواں تارا‘ اشاعت پذیر ہوا تو اس ناول کو ادبی حلقوں میں بہت پزیرائی ملی۔ اس وقت پی ٹی وی کے چیئرمین پرویز رشید کی خواہش پر منشا یاد نے اس ناول کو ’راہیں‘ ڈرامہ سیریل میں ڈھالا جب کہ منشا یاد کی خواہش پر لاہور سینٹر کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر طارق جمیل نے اسے ڈرامائی شکل دی۔ اس ڈرامے کو 1999ء میں پی ٹی وی کا نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔ راہیں میں جاذبہ سلطان، سمیرا یوسف، صائمہ سلیم، غیوراختر، مسعود اختر، حبیب، توقیر ناصر اور سلیم شیخ جیسے بڑے اداکاروں نے کام کیا۔
کیریئر کا آغاز بطور سیٹ ڈیزائنر
طارق جمیل نے اپنے کیریئر کا آغاز پی ٹی وی کراچی سینٹر سے بطور سیٹ ڈیزائنر کیا۔ وہ این سی اے لاہور سے فائن آرٹس میں گریجویٹ تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے انہوں نے اردو میں ایم اے بھی کر رکھا تھا۔ پی ٹی وی میں چند سال گزارنے کے بعد انھوں نے ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے پی ٹی وی کو دوبارہ بطور اسسٹنٹ پروڈیو سر جوائن کیا۔ 70 کی دہائی میں شوکت صدیقی کے چھپنے والے شہرہ آفاق ناول ’جانگلوس‘ کی پی ٹی وی نے 1989ء میں ڈرامائی تشکیل کی تو اس کے ڈائریکٹر کاظم پاشا تھے جب کہ طارق جمیل نے انہیں اسسٹ کیا۔
’آنچ‘ طارق جمیل کا پہلا ڈرامہ سیریل
1993ء میں ’آنچ‘ طارق جمیل کا پہلا ڈرامہ سیریل تھا جس کی انہوں نے ہدایات دیں۔ ’آنچ‘ ناہید سلطانہ اختر نے تحریر کیا۔ انہوں نے پہلے سے شائع شدہ اپنے ہی ناول ’بہتے پانی پر مکان‘ کی ڈرامائی تشکیل کی۔ یہ سیریل کراچی سینٹر کی پیش کش تھی۔ اس ڈرامے میں شفیع محمد شاہ اور شگفتہ اعجاز نے مرکزی کردار ادا کیے۔ یہ سیریل اپنے وقت میں بہت مقبول ہوئی۔ شگفتہ اعجاز اسی ڈرامے سے بطور ادا کارہ اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئیں۔
بعد ازاں طارق جمیل لاہور سینٹر آگئے جہاں 1997ء میں انہوں نے ایک اور منفرد و مقبول کام ’جنجال پورہ‘ کے نام سے کیا۔ اس ڈرامہ سیریل میں پہلی دفعہ کُھل کر خواجہ سراؤں کی زندگی، ان کی خوشی غمی اور رہن سہن کو دکھایا گیا۔
یہ تحریر شاہد محمو د ندیم کی تھی جب کہ کاسٹ میں سویرا ندیم اور مدیحہ گوہر کے علاوہ محمود اسلم، نیئر اعجاز اور نسیم وکی نے بالترتیب ریما، گرو چھیمی اور چنبیلی کے نام سے خواجہ سرا کے کردار نبھائے۔
موجودہ صدی کے آ غاز میں انہوں نے ڈاکٹر طارق عزیز کا تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ’دوپٹہ‘ ڈائریکٹ کیا۔ اس ڈرامے کی کاسٹ میں قوی خان، نایاب، قندیل، فرزین، حبیب اور محمود اسلم جیسے فنکار شامل تھے۔
طارق جمیل صاحب سے پہلی ملاقات
مجھے بنیادی طور پر ایکٹنگ کا شوق تھا۔ یہ شوق کسی نہ کسی طور فروری 2000ء میں مجھے ریڈیو کا پروڈیو سر بنا گیا۔ ریڈیو لاہور میں دیگر کچھ پروگراموں کے ساتھ ادبی پروگراموں کا بھی پروڈیوسر تھا۔ ڈاکٹر طارق عزیز 80ء اور 90ء کی دہائی میں پی ٹی وی کے لیے کئی مشہور ڈرامے لکھ چُکے تھے۔ ڈاکٹر طارق عزیز ایف سی کالج لاہور میں اردو کے پروفیسر تھے اور میرے ادبی پروگراموں میں اکثر شرکت کیا کرتے تھے۔ وہ ٹانگوں سے معذور تھے مگر بہت باہمت انسان تھے۔ وہ بالکل نارمل انسانوں کی طرح زندگی گزارتے، خود گاڑی چلاتے اور پُر اعتماد زندگی بسر کرتے۔ان دنوں ڈرامہ سیریل ’دوپٹہ‘چل چکا تھا، ڈاکٹر صاحب کا آنا جانا پی ٹی وی لاہور سینٹر لگا رہتا۔ میری پہلی ملاقات بھی طارق جمیل صاحب کے ساتھ تبھی ہوئی جب میں ڈاکٹر صاحب کی وہیل چیئر چلا کے ان کے ساتھ پی ٹی وی گیا۔ گو کہ ڈاکیومنٹری کے نامور پرڈیوسر اور پنجابی اردو کے شاعر سلمان سعید، ’میں اور آپ‘ فیم سلیم طاہر سمیت پی ٹی وی کے کئی لوگوں سے دوستیاں تھیں لیکن طارق جمیل صاحب سے بہت گہرا تعلق بن گیا۔
ہندکو بولنے والے پراچہ خاندان سے تعلق
طارق صاحب نوشہرہ (کے پی ) میں 1951ء کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ پشتو روانی سے بولتے مگر ان کا تعلق ہندکو بولنے والے پراچہ خاندان سے تھا۔ وہ پنجابی اور اردو بھی بہت سلیس اور رواں بولتے تھے۔ 2002ء میں میرے پنجابی افسانوں کی کتاب چھپی تو طارق صاحب کو بھی پیش کی۔ کتاب ہٰذا کا دیباچہ منشا یاد صاحب نے لکھا تھا اس لیے طارق صاحب کو میرے اور منشا یاد صاحب کے تعلق کا علم تھا۔ گاہے گاہے ہماری طویل نشستیں ہوتی رہیں۔ ادب، آرٹ اور ڈرامہ سمیت مختلف موضوعات پر ہم گھنٹوں گفت گو کرتے۔
2003ء میں طارق صاحب نے منشا یاد کی سیریل ’پورے چاند کی رات‘ پر کام شروع کیا تو کہنے لگے آڈیو تو آپ جانتے ہی ہیں آپ میرے ساتھ آجائیں تو ویڈیو پر بھی ہاتھ سیدھے کر لیں۔ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں، میں نے فوراً ہامی بھر لی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پی ٹی وی کی حدود میں داخلہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہوا کرتا تھا۔ صورتِ حال یہ تھی کی استقبالیہ پر عموماً جن کے نام کی پرچی آئی ہوتی تھی وہ ان واقف کاروں سے نظریں ملانے سے اجتناب کرتے ،جو اندر جانے کا آسرا ڈھونڈھ رہے ہوتے تھے۔
میں ہر سہ پہر طارق صاحب کے دفتر چلا جاتا۔ ہم اسکرپٹ پر بات چیت کرتے منشا صاحب کی کئی اقساط طارق صاحب سے پہلے میں پڑھتا۔ کاسٹنگ کا مرحلہ شروع ہوا تو روز کئی نامی گرامی فن کار طارق صاحب سے ملنے آتے۔ جب انہیں پتا چلتا کہ ڈرامے کی کاسٹنگ میں میرا بھی کوئی کردار ہے تو وہ مجھ سے بھی تعلق بہتر بنانے کی کوشش کرتے لہٰذا مجھے بھی احساس ہوتا کہ میں بھی کوئی اہم آدمی ہوں۔ فن کاروں کا یہ رویہ بالکل نارمل تھا کیوں اس زمانے میں پرائیویٹ پروڈکشن کا آج کل کی طرح دور دورہ نہیں تھا۔ اس سیریل میں ولن کے رول کے لیے میں نے اپنے ایک دوست پروفیسر جنید اکرم مرحوم کا نام تجویز کیا ۔جنید اکرم، سہیل احمد (عزیزی) کے برادرِ خورد تھے،گو کہ انہوں نے کبھی اداکاری نہیں کی تھی مگر اپنے بھائی کی طرح ہی با صلاحیت تھے۔ جنید صاحب کی طارق صاحب سے ملاقات بھی کروائی اور یہ طے پاگیا کہ ولن کا کردار جنید صاحب ہی نبھائیں گے لیکن بعد ازاں بوجوہ یہ کردا رجنید صاحب نے نہیں کیا۔ اتفاق سے انہی دنوں ملازمت کے سلسلے میں مجھے دو ماہ کے لیے اسلام آباد آنا پڑا۔
طارق جمیل شاعر بھی تھے
واپس لاہور گیا تو طارق صاحب سے ویسے ہی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آنے والے برسوں میں ہم نے کئی آئیڈیاز پر کام کیا مگر اتفاق ایسا ہے کہ کبھی بھی کوئی عملی شکل نہ بن سکی۔ ڈرامے کا نام رکھنے کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ ہمیشہ مثبت عنوان ہونا چاہیے۔کاسٹنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا۔ جو فرد جس ماحول سے مانوس نہ ہو ویسا کردار وہ عمدگی یا پرفیکشن سے نہیں نبھا سکتا۔ طارق جمیل شاعر بھی تھے اور ادب کا خاص مطالعہ کر چُکے تھے۔ ان کی گفت گو میں ٹھہراؤ، گہرائی، تخلیقی پن اور متانت تھی۔ ان کی پہلی بیوی وفات پا گئیں تو انہوں نے دوسری شادی کی (گو ان کے ہاں کوئی اولاد نرینہ نہ ہوئی)۔ انہی دنوں انسانوں سے وابستگی کے حوالے سے ایک دن گپ شپ کرتے ہوئے کہنے لگے ایک دفعہ مجھے محبت ہو گئی ۔مجھے ایک مقام پر لگا کی میری اس خاتون سے شادی نہیں ہو سکتی تو میرا دل چاہا کہ یہ مجھے اپنا بھائی ہی بنا لے۔ مطلب کسی حساس شخص کے لیے تعلق کا ٹوٹنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔
ماں کا درجہ کم کیے بغیر والد کا درجہ بھی بڑھنا چاہیے
اسی طرح ان کے والد کی وفات پر میں ان سے تعزیت کرنے گیا تو کہنے لگا ہمارے مذہب اور معاشرے نے ماں کو بہت افضل درجہ دے رکھا ہے اور واقعی ماں اس درجے کی مستحق بھی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ماں کا درجہ کم کیے بغیر والد کا درجہ بھی بڑھنا چاہیے۔
2005 ء میں جیو نے اپنے انٹرٹینمنٹ چینل کے لیے پی ٹی وی سے ایوب خاور اور طارق جمیل جیسے ڈائریکٹرز کو کئی گُنا معاوضے پر اُٹھا لیا۔ ایوب خاور صاحب کو ریٹائرمنٹ کے فوائد مل گئے لیکن سروس پوری نہ ہونے کی وجہ سے طارق صاحب کو کچھ خاص فائدہ نہ ہوا۔ جیو میں طارق صاحب نے پانچ چھ سال گزارے مگر کوئی خاص کام نہ کیا۔ واقفانِ حال کا کہنا تھا کہ جیو کا مقصد کام کروانا نہیں تھا بل کہ پی ٹی وی سے کام کے بندوں کو نکالنا تھا جس میں وہ کامیاب رہا۔ واقعی 2005ء کے بعد پی ٹی وی کا ڈراما تاریخ ہوگیا۔
’جانگلوس‘
جیو میں انہوں نے چند ڈرامے کیے جن میں حمید کاشمیری کا لکھا ہوا ’ہفت آسمان‘ ڈاکٹر انور سجاد کا ’تلاشِ وجود‘ اور 2008ء کے الیکشن کے موقع پر عبدالقادر جونیجو کا ’گھوڑا اور گاڑی‘ شامل ہیں۔ ان ڈراموں میں معاون اور پروڈیوسر کے طور پر علی ہاشمی نے کام کیا۔ 2005ء میں وہ جیو لاہور میں بیٹھتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھے بلایا اور بتایا کہ جیو ’جانگلوس‘ ناول پر سیریل بنانا چاہ رہا ہے۔ یاد رہے کہ پی ٹی وی کراچی سے ادھورا سیریل ہی نشر ہوا تھا۔ جیو کا پروڈیوسر اعجاز باجوہ کے اشتراک سے یہ سیریل بنانے کا ارادہ تھا۔ طارق صاحب نےکہا کہ اعجاز باجوہ کا کہنا ہے کہ یہ سیریل وصی شاہ سے لکھوائیں۔ طارق صاحب کا خیال تھا کہ وصی شاہ ممی ڈیڈی لکھاری ہے اسے دیہی زندگی کا نہیں پتا۔ مگر وہ کہنے لگے ملاقات پر وصی شاہ نے بتایا کہ وہ سرگودھا کا ’جانگلی‘ ہے ۔ دیہاتی زندگی اس کے لیے اجنبی نہیں لیکن اس کے باوجود میری رائے میں جانگلوس یا منشا یاد لکھ سکتے ہیں یا اکمل شہزاد گھمن۔ یقیناً یہ میرے لیے بہت اعزاز تھا۔ گو کہ جانگلوس کی تینوں جلدیں میں نے پڑھیں مگر ڈرامہ لکھنے کی نوبت نہ آئی۔ بہرحال طارق صاحب کے ساتھ مل کر ایک اور آئیڈیا پر بھی کام کیا جس میں وزیرِ اعظم اور صدر بھی تھے۔ پاکستان میں پہلے اس نوعیت کا کام نہیں ہوا تھا اگرچہ بعد میں جیو نے اپنے دیگر مزاحیہ پروگراموں میں ایسا کیا بھی۔ طارق صاحب کا خیال تھا کہ ایک تخلیق کار کو بغیر کسی حد بندی کے سوچنا چاہیے۔
باپ کا کردار
جیو چھوڑنے کے بعد طارق صاحب نے اداکاری شروع کر دی وہ عموماً باپ کا کردار ہی ادا کرتے کیوں کہ جتنی تعداد میں ڈرامے بن رہے ہیں اس حساب سے کئی ایسے کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ طارق صاحب کی ایکٹنگ میں بھی ایک ٹھہراؤ، وقار اور پُختگی تھی۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ’دلِ مومن‘، ’سات پردوں میں‘، ’پیا نام کا دیا‘ اور ’اڑان‘ شامل ہیں۔
طارق صاحب نے ابتدائی تعلیم نوشہرہ کینٹ اور مسلم ماڈل اسکول لاہور سے حاصل کی تھی۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہ کراچی میں ہی مقیم تھے۔ ایک سال قبل وہ لاہور اپنے گھر منتقل ہو چکے تھے۔8 اپریل کی شام ایک ورسٹائل تخلیق کار طبیعت کی معمولی خرابی کے بعدتقریباً 72 سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہہ گیا۔ لاہور میں ہی طارق جمیل صاحب کو 9 پریل کی سہہ پہر سپردِ خاک کر دیا گیا۔ یقیناً طارق جمیل اپنے نام سے زیادہ اپنے کام سے یاد رکھے جائیں گے۔