چینی وزیر اعظم لی چھیانگ کی 15 اکتوبر کو صدر آصف زرداری سے ملاقات ہوئی تھی۔ دونوں ملکوں کی آل ویدر فرینڈ شپ، سی پیک منصوبوں اور تعاون کا ذکر ہوا۔
صدرمملکت کا کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے، دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید وسعت دی جائے۔ چینی کمپنیاں پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کریں، وقت آ گیا ہے کہ سی پیک اور گوادر پورٹ کی مدد سے چین کی ترقی سے پاکستان بھی استفادہ کرے۔ آصف زرداری نے نومبر میں چین کا دورہ کرنے، وہاں پرانے دوستوں سے رابطہ اور تعلقات مضبوط کرنے کی بات بھی کی۔
دو پرانے دوست ملکوں کے لیڈروں کی ملاقات پر یہ بیان بہت روایتی سا لگتا ہے۔ نئی بات صرف صدر کے نومبر میں چین جانے کی ہے۔ اس دورے والے نکتے کو ٹائٹ پکڑیں، اس کو پکڑ کر ہم پاکستانی سیاست، معیشت اور سفارت کے امکانات دیکھتے ہیں۔ آپ نے بس ہلنا نہیں ساتھ ہی گھومنا ہے۔
اکتوبر دو ہزار گیارہ مینار پاکستان پر پی ٹی آئی نے جلسہ کیا تھا۔ یہ پارٹی کی ری برانڈنگ تھی۔ اس جلسے میں کپتان نے بیٹ، وکٹیں اپنی کمر پر باندھیں اور سیاست میں باؤلنگ شروع کر دی۔ باؤلنگ کیا باؤنسر ہی مارنا شروع کر دیے۔ کپتان جیل پہنچ گیا اور باؤنسر ہیں کہ آ رہے ہیں، اور وج رہے ہیں سب کو۔ اس جلسے میں کپتان نے نعرہ لگایا تھا میاں صاحب! جان دیو، ساڈی واری آن دیو۔ میاں صاحب اس نعرے سے پہلے ہی خیبر پختون خوا، بلوچستان، سندھ اور کراچی کی ہر اُس پاکٹ سے نکل گئے تھے، جہاں ان کے چار ووٹر یا سپوٹر موجود تھے۔
پنڈی کو ایک اتحادی مل گیا تھا جس کو پاکستانی یوتھ نے دل پکڑا دیا تھا۔ خواتین، کارپوریٹ سیکٹر، سرکاری ملازم، پنجاب کے ہر اس حلقے میں جہاں نون لیگ کے مخالف کمزور تھے، پی ٹی آئی کے پیچھے کھڑے ہو گئے تھے۔ کپتان نے پرانا انداز سیاست اڑا کر رکھ دیا۔ جیسے نوازشریف نے اپنی بہت سی پاکٹس اور سیاسی مورچے خالی کر دیے۔ یہی کام آصف زرداری نے بالکل الگ وجہ سے کیا۔ محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد جیالوں کو شدت پسندوں کے حملوں سے بچاتے ہوئے، پی پی لیڈر نے اپنی پارٹی سیاست کی خیبر پختون خوا میں قربانی دے دی۔
پنڈی کو ان علاقوں میں ایک مضبوط پارٹی کی سپورٹ مل گئی جو شدت پسندی سے متاثر تھے۔ پشتون بیلٹ کے انہی علاقوں میں مولانا فضل الرحمان بہت موثر تھے۔ پی ٹی آئی نے مولانا کو ٹارگٹ کر لیا۔ مولانا ہوشیار سیاستدان ہیں، انہوں نے اپنا غصہ اور گلہ جدھر بنتا تھا ادھر ہی بنایا یعنی پنڈی کے ساتھ۔ پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کی اکثریت نوازشریف کے ساتھ تھی۔ اے این پی کا اتحاد آصف زرداری سے تھا۔ یہ قوم پرست جماعتیں بھی اس بڑی لڑائی میں بُری طرح متاثر اور سیاسی طور پر ٹارگٹ ہو گئیں۔
کپتان کا اتحاد ٹوٹا، اس نے اپنے ٹائیگر کو تاتاری لشکر بنا لیا۔ گھڑی پر ٹائم رکھ کر ٹائیگر کو ٹارگٹ دیے کہ تین گھنٹے میں جا کر فلاں محرر کو چارج لینے سے روکنا ہے، ہماری حکومت گرانے کا یہ ذمہ دار ہے۔ دوڑا دوڑا کر اپنے سپورٹر اور فائنانسر کا تیل نکال دیا بھائی نے، حاصل وصول صفر۔ نیا مائی لارڈ آنا ہو یا مائی گارڈ، ہر تقرری کے وقت ٹائیگر آڑے آتے رہے۔ کوئی مالی معاہدہ ہو، کسی غیر ملکی مہمان کی آمد ہو پی ٹی آئی نے اس پر میلہ لگانے کی کوشش کی۔ یہ سب کتنا ناکام رہا اس کا اندازہ ایس سی او ہیڈ آف گورنمنٹ اجلاس میں مہمانوں کی شرکت سے لگا لیں۔
یہ پاکستانی سیاست کا پس منظر ہے، یہی پیش منظر ہے۔ اسی کے گرد ہماری سیاست گھوم رہی ہے۔ اس سارے گھڑمس کے دوران آئینی ترمیم بھی منظور کرا لی گئی۔ اس آئینی ترمیم کے لیے ہوئی ساری بھاگ دوڑ میں دو ہی لوگ نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ ایک مولانا فضل الرحمان، دوسرے بلاول بھٹو ۔ پرانے سیاستدانوں نے بہت صبر کے ساتھ، بہت عدم استحکام کے دوران بھی اپنا کول لوز نہیں کیا۔ آئینی ترمیم کر لی، سیاست پھونک کر حکومت چلا کر دکھا دی۔
دنیا میں اس وقت طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں۔ مڈل ایسٹ اوپر نیچے ہو رہا ہے۔ انڈیا بہت پرو ویسٹ رہ کر بھی روس چین کے ساتھ قربت بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی امکانات ہیں۔ ایک بیلنس ہے جو ہم برقرار رکھیں تو ہمارے لیے امکانات بہت ابھر رہے ہیں۔ اس موقع پر نوازشریف کا امریکا جانا اور آصف زرداری کا بیجنگ جانا اہم ہے۔
چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ یہ چیلنجز سیکیورٹی سے متعلق بھی ہیں اور سی پیک کے نئے منصوبوں کا اعلان بھی نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستانی سیاست کے لینڈ سکیپ پر غور کریں۔ سی پیک منصوبوں کا سوچیں، یہ گلگت بلتستان سے شروع ہوتے ہیں اور گوادر تک جاتے ہیں۔ آصف زرداری کی پی پی بارے کسی نے غور نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی نے اس سارے روٹ پر اپنی سیاست کو بحال کیا ہے۔ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ پی پی لے گئی۔ گوادر تربت سے ایم این اے، ایم پی اے پیپلز پارٹی کے منتخب ہوئے۔ آپ کرتے رہیں اعتراض کہ یہ تو ایسے نہیں ویسے منتخب ہوئے۔ آئینی عہدے پیپلز پارٹی کے پاس ہیں، ہاتھ میں آئینی ترمیم کا کریڈٹ بھی ہے۔ پارٹی کو کوئی جلدی نہیں، بلاول بھٹو کے پاس ٹائم ہی ٹائم ہے۔
آصف زرداری جب چین جائیں گے، تو میزبانوں کو بھی لانگ ٹرم پلاننگ میں اس پارٹی کے آئندہ امکانات سامنے رکھنا ہوں گے۔ آصف زرداری اور بھی بھاری ہو رہے ہیں۔ وہ ہر اس جگہ مضبوط اور موثر ہو چکے ہیں جہاں سی پیک کو خطرات یا خدشات لاحق ہیں۔ پی پی مخالف دل چھوٹا بڑا نہ کریں۔ کسی اگلی تحریر میں باقی پارٹیوں کی جہاں نگاہیں اور نشانہ ہے اس کا بھی ذکر ہو گا۔