کرم کی واحد سڑک پر دہشتگردوں کا راج، رہائشی محصور، مریض موت سے دوچار

جمعہ 1 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں دہشتگردوں کے حملے کے باعث سڑک کی بندش سے ضلعے میں اشیائے خورونوش، اودویات، پیٹرول اور دیگر ضروری چیزوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے جبکہ طبعی امداد نہ مل سکنے کے باعث اب تک 6 بچے بھی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

انتظامیہ اور مقامی افراد کے مطابق ضلع کرم کے لیے جانے والی واحد روڈ چھپری چیک پوسٹ سے آگے مکمل طور پر غیر محفوظ ہے اور مسلح افراد کی جانب سے مسافروں پر حملے کیے جا رہے ہیں جس کے باعث 12 اکتوبر سے روڈ بند ہے اور رابطہ منطقع ہے۔ نتیجے کے طور پر علاقے میں اشیائے ضروریہ ضروری کی سپلائی بھی بند ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کرم: زمین کا جھگڑا متعدد جانیں نگل گیا، خونی جھڑپوں سے علاقے میں خوف و دہشت کا راج

پاڑا چنار میں واقع ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ روڈ کی بندش کے باعث ایمرجنسی میں مریضوں کو منتقل نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس وجہ سے 6 بچے بھی انتقال کرچکے ہیں۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق اسپتال میں اودیات کی بھی شدید قلت ہے۔

اشیائے خورونوش کی شدید قلت

پاڑاچنار کے مکین مہدی شاہ نے بتایا کہ پاڑاچنار میں لوگ محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنے علاقے میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور سخت مشکلات سے دوچار ہیں‘۔

مہدی شاہ نے بتایا کہ دکانوں میں اشیائے خورونوش ختم ہوچکی ہیں جبکہ دوردراز علاقوں میں حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رہائشی انتہائی خوف میں مبتلا ہیں اور بچے تعلیم کے لیے شہر نہیں جا سکتے ہیں جس سے ان کا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ واحد علاقے آنے والی واحد سڑک پر دہشتگردوں کا راج ہے جس کی وجہ سے لوگ سفر نہیں سکتے ہیں۔

سڑک کھلنے کے منتظر افراد پشاور و دیگر شہروں میں پھنس گئے

پاڑاچنار اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پشاور اور دیگر شہروں میں روڈ کھلنے کے منتظر ہیں۔ حسنین رضا بھی پاڑاچنار جانے کے لیے روڈ کھلنے انتظار میں ہیں اور پشاور کے ایک ہوٹل میں مقیم ہیں۔

مزید پڑھیے: کرم، 6 روز سے مورچہ زن قبائلی جرگے سے مذاکرات کے بعد فائر بندی پر متفق

انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ گزشتہ 15 روز سے پشاور میں روڈ کھلنے کے انتظار ہیںْ وہ اپنے بچے کو چیک اپ کے لیے اسپتال لائے تھے۔ انہوں نے مزید کہا اب ہوٹل کا خرچہ بھی برداشت سے باہر ہو گیا ہے اور شدید پریشانی ہے۔

حسنین نے بتایا کہ مسافروں کی ایک بڑی تعداد پاڑاچنار اور دیگر علاقوں کو جانے کے منتظر ہیں اور پشاور میں ہوٹل یا رشتہ داروں کے ہاں قیام پذیر ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کافی تعداد میں غیر ملک سے آئے مسافر بھی آبائی علاقے جانے سے قاصر ہیں اور ہوٹلوں میں قیام پذیر ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کئی سال بعد آنے والے مسافر روڈ بندش سے پریشان ہیں۔

دبئی سے کچھ روز قبل آنے والے عدنان نے بتایا کہ ان کے اہل خانہ ان کے منتظر ہیں لیکن وہ ہوٹل میں روڈ کھلنے کی آس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایاکہ وہ ایک ماہ کی چھٹی پر آئے ہیں لیکن انہیں لگتا نہیںہے کہ وہ اپنے گھر جاسکیں گے۔

مہدی شاہ نے بتایا کہ پاڑاچنار اور دیگر علاقوں میں ڈیزل اور پیٹرول کی بھی شدید قلت ہوچکی ہےاور علاقے میں گندم کی کاشت کا سیزن بھی شروع ہوچکا ہے لیکن ڈیزل نہ ہونے کے باعث کاشت کار متاثر ہو رہے ہیں۔

سڑک کی بحالی کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

کرم کے لیے روڈ بند ہونے پر حکومت پر خاموش ہے۔ چند دن پے وزیر اعلیٰ نے متعلقہ حکام کو روڈ کھولنے کے لیے اقدامات کی ہدایت کے تھی لیکن اس حوالے سے اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق انتظامیہ نے پولیس کی مدد سے روڈ کلیئر کرنے کی کوشش کی تھی لیکن فائرنگ کی وجہ سے وہ کوشش بارور ثابت نہیں ہوسکی۔

ذرائع نے بتایا کہ انتظامیہ مقامی جرگے کے ذریعے بھی معاملہ حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اصل معاملہ کیا ہے؟

محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق کرم میں 2 قبائل کے درمیان زمین پر لڑائی 7 جولائی کو شروع ہوئی جس کے بعد اس میں شدت آچکی ہے۔

کرم میں شاملات کی زمین پر تنازعے اور مسلحہ لڑائی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ علاقے کا پرانا جھگڑا ہے جو عرصے سے چلا آرہا ہے۔

محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی رپورٹ کے مطابق کرم میں شاملات کی زمینوں کے 8  تنازعات ہیں جو قیام پاکستان سے بھی پہلے کے ہیں اور اب تک چلے ارہے ہیں۔

مزید پڑھیں: مالم جبہ میں غیر ملکی سفیروں پر حملہ صوبائی حکومت کی غفلت کے سبب ہوا، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کنڈی

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 7جولائی کو بوشیرہ ڈانڈارشاملات پر 2 مقامی قبائل کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جو رفتہ رفتہ شدت اختیار کر گیا۔  یہ لڑائی بوشیرہ اور ڈانڈار قبائل کے درمیان  متنازعہ شاملات میں تعمیرات پر شروع ہوئی۔

اب تک اس لڑائی میں 7 افراد جاں بحق جبکہ 37 زخمی ہوئے ہیں ضلعی انتظامیہ نے وہاں دفعہ 144نافذ کی ہوئی ہے۔

کرم میں ہی موجود صحافی نبی جان نے وی نیوز کو بتایا کہ علاقے میں شاملات کے معاملے پر ایشوز کو ختم کرنے کے لیے جرگے ہوئے اور انتظامیہ نے بھی کوشش کی لیکن اب تک تمام تر کاوشیں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔

نبی جان نے مزید بتایا کہ طرفین اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں جس کے باعث اب تک متعدد جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔

کرم میں زمینوں کی وجہ سے لڑائی معمول بن گئی ہے اور لوگ اکثر ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شاملاتی زمین کے تنازعے پر 2 قبائل نے ایک دوسرے کو ٹارگٹ کیا۔ پہلے گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس کے جواب میں سرکاری اسکول میں امتحانی  ڈیوٹی پر مامور مخالف قبیلے کے اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا جس میں اساتذہ سمیت 6 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp