بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی میں نمک بنانے کا کام 1916 میں شروع ہوا اور یہ ایک قدیم مقامی صنعت ہے۔
پسنی میں نمک بنانے کے لیے قریبی پہاڑ جبل ذرین سے چکنی مٹی لائی جاتی ہے، نمک بنانے کے لیے پہلے کیاریاں بنائی جاتی ہیں اور لیول کے حساب سے چکنی مٹی ڈالی جاتی ہے۔ مٹی ڈالنے کے بعد تین انچ تک زیر زمین پانی ڈالا جاتا ہے اور جب تک نمک تیار نہیں ہوتا ہے مٹی ڈالنے کا عمل روزانہ کیا جاتا ہے۔
پانی کا لیول ڈیڑھ انچ تک کم ہونے سے نمک کے بجائے تیزاب بن جاتا ہے۔ نمک بنانے کے لیے جو زیر زمین پانی استعمال کیا جاتا ہے وہ سمندری پانی سے کئی گنا نمکین اور گاڑھا ہوتا ہے۔ سخت گرمیوں میں نمک بننے میں 15 دن جبکہ سردیوں میں ایک ماہ سے دو ماہ تک کا وقت لگ جاتا ہے۔
جب نمک تیار ہو جاتا ہے تو پانی سمیت ایک جگہ پر اکٹھا کیا جاتا ہے اور سورج کی روشنی سے خشک ہونے کے بعد تیار ہوکر مقامی مارکیٹ لے جایا جاتا ہے۔
نمک کے کاروبار سے گزشتہ 36 سالوں سے منسلک ملا شاہ داد نے وی نیوز کو بتایا کہ پہلے زمانے میں نمک کے کارخانے بہت زیادہ تھے کیونکہ پسنی میں مچھلیوں کو نمک لگا کر خشک کرکے سری لنکا سمیت دیگر ممالک بھیجا جاتا ہے۔ ابھی کولڈ اسٹوریج کی وجہ سے دنیا بھر میں خشک مچھلیوں کی ڈیمانڈ ختم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے کافی کارخانے بند ہوگئے ہیں۔ یہاں تیار ہونے والا نمک اب تربت، پنجگور اور مقامی مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ یہ نمک بوریوں میں بند ہو کر فی کلو پانچ روپیے کے حساب سے بکتا ہے۔
ریسرچر ملک جان کے ڈی نے بتایا کہ جب کولڈ اسٹوریج نہیں تھے تو نمک کے کاروبار کا عروج تھا کیونکہ مچھلیوں کو خشک کرنے کے لیے وافر مقدار میں نمک کی ضرورت تھی۔ ابھی یہاں وہی لوگ کام کررہے ہیں جنہیں نمک سازی کا کام ورثہ میں ملا ہے، وہی اس پیشے کو ذندہ رکھے ہوئے ہیں۔