افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے کے باوجود پوست کی کاشت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں طالبان حکمرانوں کی جانب سے عائد کردہ کڑی پابندیوں کے باوجود رواں سال 12800 ہیکٹر رقبے پر افیون کاشت کی گئی جو 2023 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کی پابندی کے بعد افغانستان میں پوست کی پیداوار میں 95 فیصد کمی
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال ملک میں پوست کی کاشت کا تقریباً خاتمہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں افیون کی پیداوار میں 95 فیصد تک کمی آئی۔ پابندیوں سے پہلے 2022 میں 232000 ہیکٹر پر پوست کی فصل اگائی گئی تھی۔
یو این او ڈی سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غادہ والی نے افغانستان کے کسانوں کو ہنگامی بنیادوں پر پائیدار متبادل زرعی روزگار فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں لوگوں کو سخت مالی اور انسانی مسائل کا سامنا ہے اور انہیں متبادل روزگار کی اشد ضرورت ہے۔
منڈی کا دباؤ اور غربت
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں افیون کی کاشت کے حوالے سے نمایاں جغرافیائی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ جنوب مغربی افغانستان کو عام طور پر افیون کی پیداوار کا گڑھ سمجھا جاتا ہے تاہم رواں سال 59 فیصد افیون شمال مغربی صوبوں میں پیدا ہوئی جہاں اس کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چترالی کاشتکاروں نے منشیات اگانے کی ٹھان لی، اصل وجہ کیا ہے؟
رپورٹ کے مطابق، منشیات کی منڈی کا دباؤ اور کسانوں کو درپیش معاشی مشکلات افیون کی کاشت میں اضافے کی ایک ممکنہ بڑی وجہ ہے۔ رواں سال کی پہلی ششماہی میں خشک افیون کی قیمت 730 ڈالر فی کلوگرام رہی جو کہ پابندی سے پہلے کے مقابلے میں بہت بڑا اضافہ ہے جب فی کلو گرام افیون 100 ڈالر میں فروخت ہوتی تھی۔
یو این او ڈی سی کا کہنا ہے کہ افیون کی بلند قیمتیں اور اس کے قلیل ذخائر کسانوں کو پابندیاں توڑنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے علاقوں میں یہ خدشہ زیادہ ہے جہاں روایتی طور پر افیون کاشت نہیں کی جاتی۔
بین الاقوامی مدد کی ضرورت
متبادل زرعی روزگار سے محروم افغان کسانوں کو غیریقینی مالی حالات کا سامنا ہے اور انہیں آئندہ دوبارہ افیون کی کاشت سے روکنے کے لیے آمدنی کے دیگر ذرائع فراہم کرنا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افیون کی کاشت میں کس ملک نے افغانستان کو پیچھے چھوڑ دیا؟
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی اور ملک میں ادارے کے امدادی مشن (یوناما) کی سربراہ روزا اوتنبائیوا نے کہا ہے کہ اگرچہ افیون کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن کسانوں کو درپیش مشکلات بھی بڑھ گئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ افیون کی پیداوار میں کمی کا افغانستان کے ہمسایہ ممالک، خطہ اور دنیا بھی خیرمقدم کریں گے تاہم موجودہ حالات میں ملک کے دیہی لوگوں نے اپنی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ کھو دیا ہے اور انہیں منشیات کی پیداوار سے روکنے کے لیے بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے۔