بی جے پی حکومت کی انتہا پسندانہ سیاست کے باعث منی پور میں اقلیتوں کیخلاف تشدد کی نئی لہر کا آغاز ہوچکا ہے۔
مودی سرکار کی پالیسیوں کے نتیجے میں آج بھارت نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کی آماجگاہ بن گیا ہے، مودی سرکار کی اقلیتوں کے خلاف نفرت منی پور میں ابھر کر سامنے آگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: منی پور، بھارتی پولیس کے ساتھ تصادم میں 10 کوکی باغی ہلاک، 1 اہلکار زخمی
پرتشدد واقعات کے نتیجے میں سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں، 11 نومبر 2024 سے لاپتا 6 افراد کی پر تشدد لاشیں 16 نومبر کو ریاست آسام کی حدود سے برآمد ہوئیں جب کہ ملنے والی پرتشدد لاشوں میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
مظاہرین کی جانب سے ریاستی وزرا اور 6 ایم ایل اے کی رہائش گاہوں پر حملہ کیا گیا ہے، مظاہرین نے وزیراعلیٰ منی پور این بیرن سنگھ کے داماد اور بی جے پی کے ایم ایل اے آر کے امو سمیت 3 قانون سازوں کے گھروں پر دھاوا بولا۔
تھانگ می بینڈ کے علاقے میں لوگوں نے کاروں اور ٹائروں کو جلا کر احتجاج کیا ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے نہتے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی ریاست منی پور میں ہندو ، عیسائی تصادم: 54 افراد ہلاک
مودی سرکار نے 7 اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز معطل اور کرفیو نافذ کردیا ہے، منی پور میں حالیہ تشدد کی لہر کے باعث ہوم منسٹر امت شاہ کی مہاراشٹرا میں الیکشن ریلی بھی کینسل کردی گئی ہے۔
منی پور میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث منی پور کے وزیراعلیٰ استعفیٰ دینے پر مجبور ہیں۔
منی پور میں ریاست مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے انڈیا، میانمار سرحد پر باڑ کی تعمیر کا آغاز کردیا گیا ہے، سرحد پر باڑ کی تعمیر براہ راست مودی سرکار اور امت شاہ کی نگرانی میں جاری ہے۔
منی پور میں مئی 2023 سے جاری نسلی فسادات کے نتیجے میں 415 افراد ہلاک اور 60 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: منی پور میں 249 گرجا گھر نذر آتش، فسادات کے پیچھے کس کا ہاتھ ؟
منی پور کے پرتشدد واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ مودی سرکار کے ایجنڈے میں اقلیتیں کبھی ترجیح نہیں رہی، مودی سرکار نسلی فسادات کو ہوا دے کر اپنے اقتدار کو طول دے رہا ہے۔
منی پور میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر مشیر برائے سیکیورٹی نے اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔