اس ملک میں اشرافیہ، سرکار اور اس کے ادارے دھڑلے سے وہ ٹویٹر ایکس سہولت بذریعہ وی پی این استعمال کر رہے ہیں جس تک عام آدمی کی رسائی ممنوع ہے۔
وہ تمام بچے جو ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ( وی پی این ) کے ذریعے اس ملک کو اپنے بل پر ساڑھے تین ارب ڈالر سالانہ کما کے حکومت اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے بارے میں یہ فرض کر کے کسی بھی ترسیلی میڈیم پر پابندی لگا دینا کتنا آسان ہے کہ یہ سب کے سب انٹرنیٹ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور وی پی این کے ذریعے بم بنانا سیکھ رہے ہیں یا پھر ننگ پن دیکھ رہے ہیں۔
انٹرنیٹ ٹریفک قومی سلامتی کے نام پر کنٹرول ہو رہی ہے، حسبِ مزاج سلو ڈاؤن ہو رہی ہے، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے راستے میں کیلیں بچھائی جا رہی ہیں مگر اصل بات نہیں بتائی جا رہی کہ اتنا کنٹرول حاصل کر کے کیا اور کسے کنٹرول کرنا ہے؟ بطور جواز امن و امان کی ابتری اور بے راہ روی کو برگِ انجیر بنا کے پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اب تو موبائل فون بم سے مسلح ٹھیلے والے کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ یہ سارا میلہ کس کو دبانے اور کیا چھپانے کے لیے لگایا گیا ہے۔ بھلے اس کام کے لیے بعض مفتیوں کی تائید ہی کیوں نہ لینا پڑ جائے۔
انٹر نیٹ، سوشل میڈیا، موبائل فون تو ابھی کل کی بات ہے۔ پاکستان تو پچھلے چالیس برس سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے جب انٹرنیٹ کا الف بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
ہم پاکستان بننے سے بہت پہلے سائنسی علم کے حصول اور انگریزی تعلیم کی بات کرنے والے سر سید احمد خان کو جوتے دکھانے کے سانحے یا لاؤڈ اسپیکر کو شیطانی آلہ بتا کے سب سے زیادہ اسی آلے کو اذان اور تقاریر کے لیے استعمال کا ہزار بار پٹا ہوا تذکرہ نہیں کریں گے۔
رہی فحاشی و بے راہ روی تو اس ملک میں یہ پہلے دن سے ہی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ کہانی انیس سو اڑتالیس میں بچیوں کی تعلیم کے لیے قائم بیگم رعنا لیاقت علی خان کی تنظیم اپوا کی آدھی آستین کے بلاؤز پہننے والی ’مغرب زدہ‘ عورتوں سے شروع ہو کر منٹو کے افسانوں پر قانونی انگشت نمائی سے لے کر فحاشی کے منبع ٹی وی سیٹ اور وی سی آر کی سڑک پر سنگساری سے ہوتی ہوئی انٹرنیٹ کی ویب سائٹس کی بلاکنگ سے وی پی این کی غیر شرعی حیثیت تک ساڑھے سات عشروں پر پھیلی ہوئی ہے۔
ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ( وی پی این ) ان سماجوں میں زیادہ استعمال ہوتا ہے جہاں اظہار کی جائز آزادی کو بھی ریاستی بیانیے کی زنجیر پہنا دی جائے۔ اس بابت کسی ایک ملک کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ آپ اردگرد کے جغرافیے پر نظر دوڑائیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔
کوئی بھی جامد سماج بھلے مشرق کا ہو یا مغرب کا، ہر نئی شے سے ڈرتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس کی افادیت دیکھتے ہوئے اسے اپنا لیتا ہے۔ ہمارے قومی شاعر کے بقول
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
مثلاً چھاپہ خانہ یورپ میں پندرھویں صدی میں ایجاد ہوا اور اس نے علم کی آسان اور سستی ترسیل کا انقلاب برپا کر دیا۔ مگر یورپ کے بالکل پڑوس میں قائم عثمانی سلطنت تک چھاپہ خانہ آنے میں سوا دو سو برس لگ گئے۔ پہلی عربی کتاب ترکی میں نہیں بلکہ پندرہ سو چودہ میں اٹلی کے قصبے فانو میں ایک پرنٹنگ پریس نے چھاپی۔
استنبول میں پہلا پرنٹنگ پریس سترہ سو ستائیس میں سلطان احمد سوم کی رضامندی سے ابراہیم متفرقا نے قائم کیا۔ خطاطوں نے قلم کا جنازہ بنا کے محل کے آگے سے تعزیتی جلوس گزار دیا۔ شیخ الااسلام عبداللہ رومی آفندی نے اس شرط پر چھاپہ خانہ لگانے کی اجازت دی کہ اس کے ذریعے قرانِ کریم، احادیثِ مبارکہ اور فقہ کی طباعت نہیں ہو گی۔ یہ کام بدستور کاتب ہی کریں گے۔
کہیں ستر برس بعد سلطان محمود دوم کے زمانے میں تین مزید چھاپے خانوں کے قیام کی اجازت ملی اور مذہبی کتابوں کی مشینی اشاعت پر سے پابندی بھی اٹھا لی گئی۔ تب تک یورپ سائنسی و غیر سائنسی علوم کے میدان میں قلانچیں مارتا کہیں کا کہیں نکل گیا۔ اور آج بھی مسلمان دنیا اس میدان میں مغرب سے کم ازکم ایک صدی پیچھے ہیں۔ نتیجہ ہم سب دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔
وی پی این کی تاریخ پرنٹنگ پریس سے بھی پرانی ہے۔ زمانہ قبل از مسیح میں جب ایرانی یونان پر فوج کشی کی تیاری کر رہے تھے تو ایران کی باجگذار ایک چھوٹی سی یونانی جاگیر کے رئیس نے اپنے ایک سرمنڈے غلام کی کھوپڑی پر یہ خبر لکھی اور جیسے ہی اس غلام کے بال بڑھے اسے ایتھنز کی جانب دوڑا دیا۔ وہاں غلام کا سر مونڈھ کے یہ انتباہ پڑھ لیا گیا اور یونانیوں نے اپنے دفاع کے لیے اقدامات شروع کر دیے۔
عباسیوں نے جب امویوں کا تختہ الٹنے سے پہلے دور دراز مقامات پر اپنے وفاداروں کو جو احکامات پہنچائے وہ ایسی روشنائی سے ایسی مہین کھال پر تحریر ہوتے تھے جو تپش کے سبب ابھر آتے تھے ۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں انگریز مخالف علمائے دیوبند نے مسلمان ریاستوں کی مدد حاصل کرنے کے لیے ریشمی رومال پر پیغامات لکھ کے روانہ کیے۔ یہ کوشش تاریخ میں تحریک ریشمی رومال کے نام سے محفوظ ہے۔ ریشمی رومال اب سے سو برس پہلے کا وی پی این تھا۔
دیکھنے والے تو ’ ٹوٹے ‘ پہلے بھی دیکھ رہے تھے اور دہشت گرد پہلے بھی کوڈ ورڈ استعمال کر رہے تھے۔ مگر جب سے پاکستان میں مستند اطلاعات کی ترسیل کو پہنائی گئی بیڑیاں اور تنگ ہوئی ہیں۔ بالخصوص اس سال فروری میں ٹویٹر پر پابندی کے بعد ملک میں وی پی این کا استعمال تین گنا بڑھ گیا ہے۔
آپ لوگوں کو حقیقی اطلاعات تک رسائی دے دیں تو وی پی این کا بخار خود بخود اترنا شروع ہو جائے گا۔ مگر یہ آپ سے ہوگا نہیں اور عام آدمی حقیقت کی تلاش میں مدد دینے والے کسی ذریعے کو چھوڑے گا نہیں۔
یہ تادیر نہیں ہو سکتا کہ ایک شے اگر واقعی حرام ہے تو بالادست کے لیے حلال اور زیردست کے لیے حرام ہو۔ جن کی زندگی پہلے سے ہی حرام ہے اس زندگی میں ایک اور حرام سہی۔
اگر ایسا ہی ہونا ہے تو پھر ان پروہتوں میں کیا برائی تھی جو خود تو مقدس وید پڑھتے تھے مگر کسی شودر کے منہ سے مقدس الفاظ سنتے تو کانوں میں سیسہ ڈلوا دیتے۔
آج چین جو کچھ بھی ہے وہ دینگ ژاؤ بنگ کی کھلے پن کی پالیسی کے سبب ہے۔ دینگ کا قول ہے کہ جب روشندان کھلتا ہے تو تازہ ہوا کے ساتھ مکھیاں بھی اندر آتی ہیں۔ مکھیوں کے ڈر سے روشندان تو بند نہیں ہو سکتا۔
چین سے آپ بہت کچھ لے اور سیکھ رہے ہیں۔کچھ اقوالِ زریں بھی امپورٹ کر لیں۔انشاللہ نفع ہو گا۔