سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مختلق کیسز کی سماعت کی، جس میں نجی چینل کے خلاف تنخواہوں کی عدم ادائیگیاں، گھی ملز پر ٹیکس، زیر زمین پانی پر ٹیکس کے نفاز سے متعلق ازخود نوٹس شامل ہے۔ اس کے علاوہ آئینی بینچ نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی پارلیمنٹ میں تقریروں کے خلاف درخواست بھی خارج کردی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7رکنی لارجر آئینی بینچ نے کیسز کی سماعت کی۔ اس دوران نجی چینل کے خلاف تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں پر سماعت کرنے والا آئینی بینچ جسٹس عائشہ ملک کے کس سننے کے انکار کے بعد ٹوٹ گیا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں کام کی رفتار تیز، آئینی بینچ نے 3 روز میں کون سے اہم مقدمات سنے؟
جس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ نجی چینل ملازمین تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے نیا آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا، معزز جج صاحبہ نے از خود نوٹس سننے سے انکار کیا ہے، کیس اہم ہے اس لیے آج عدالتی کارروائی کو ملتوی کر رہے ہیں۔ تنخواہوں کا کیس نئے آئینی بینچ میں سماعت کے لیے لگے گا۔
گھی ملز پر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں مجھے کیس کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اس کیس میں فل بینچ کا فیصلہ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اب فل کورٹ نہیں رہا۔ 7رکنی آئینی بینچ کو ہی اب فل کورٹ سمجھا جائے۔
تاہم، آئینی بینچ نے وفاق سمیت تمام صوبوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
زیر زمین پانی پر ٹیکس کے نفاز سے متعلق ازخود نوٹس کیس پر سماعت کے دوران صوبائی لا افسران نے موقف اپنایا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا نے قانون سازی کرلی ہے۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ باقی صوبے بھی قانون سازی کرلیں، جب قانون نہیں بنایا جائے گا تو مقدمات 20، 20سال تک ہی چلتے رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں اہم کیسز کی سماعت
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اپنا کام نہیں کیا جاتا پھر کہتے ہیں عدالتیں کام نہیں کرتیں۔ ان کے ریمارکس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
ایک اور کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی پارلیمنٹ میں تقریروں کے خلاف درخواست گزار محمد اختر نقوی کی عدم پیروی پر درخواست خارج کی۔ آئینی بینچ نے درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھے۔