وفاقی حکومت کی جانب سے 30 نومبر کے بعد تمام غیر رجسٹرڈ وی پی اینز بلاک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وی پی اینز کو بلاک کر دینے کے فیصلے کے بعد سے ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ جس میں بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے، جبکہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بزنس سیکٹر کو یہ نقصان نہیں پہنچائے گا۔
انٹرنیٹ کی بندش ہو، سوشل میڈیا ایپس کی بندش ہو یا پھر وی پی اینز کی بندش، آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کو سب سے زیادہ غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فری لانسرز کو وی پی اینز کے بلاک کر دینے سے کیا نقصان ہوگا؟ اس حوالے سے جاننے کے لیے وی نیوز نے چند ماہرین اور فری لانسرز سے بات کی۔
فری لانسر اور آئی ٹی ٹرینر طاہرعمر کا کہنا تھا کہ بہت سے ممالک میں وی پی این کی رجسٹریشن کا ایک طریقہ کار ہے۔ ملک کی سیکیورٹی اور سنسرشپ کے پیش نظر وی پی این کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال متحدہ عرب امارات ہے جہاں وی پی این کا استعمال جرم ہے۔
اس طرح چین اور ایران میں بھی وی پی اینز کو رجسٹر کروانا پڑتا ہے۔ جہاں تک این ڈی ایس کی بات ہے وہ یقیناً متاثر ہوتا ہے۔ کیونکہ نان ڈسکلوژر ایگریمنٹ کے اندر سب سے بڑی پالیسی یہی ہوتی ہے کہ ڈیٹا تھرڈ پارٹی کے ساتھ شیئر نہیں ہوسکتا، جبکہ وی پی این کی رجسٹریشن کے بعد ٹریفک فلٹر ہوکر آتی ہے۔ کیونکہ حکومت یا حکومت کے زیرانتظام ادارہ اس کو مانیٹر کررہا ہوتا ہے۔ نتیجتاً کسٹمر کا اعتماد بحال نہیں ہوتا۔ تاہم اس ساری صورتحال میں جو چھوٹے پیمانے پر فری لانسرز ہیں، ان پر اس کا اثر نہیں پڑتا۔
مثلاً جو لوگ فائیور اور اپ ورک وغیرہ پر کام کرتے ہیں، ان کا جو کام ہے وہ اتنا شدید نوعیت کا نہیں ہوتا۔ البتہ جو ریمورٹ ورکرز ہیں، ان کی کمپنیوں کی جانب سے بھی وی پی اینز کی شرائط ہوتی ہیں، پھر ان کو اس طرح کی صورتحال سے کافی نقصان ہوتا ہے۔
’رجسٹریشن سے کسی حد تک یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ لوگوں کا کام نہیں رکتا اور فری لانسرز کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ مفت میں رجسٹریشن کروا سکتے ہیں۔
وی پی این کی رجسٹریشن کا عمل بھی بہت آسان ہے مگر ہمارے ہاں لوگ رجسٹریشن کے عمل سے گھبرا جاتے ہیں، جیسے ایف بی آر سے لوگ گھبراتے ہیں۔‘
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سجاد سید کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ اس قسم کے فیصلے ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے اور لاکھوں لوگ اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی یہ پالیسیاں شمالی کوریا کی پالیسیوں جیسی ہیں۔کسی ترقی یافتہ ملک نے ایسی پالیسی کبھی نافذ نہیں کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی( پی ٹی اے) کی نئی وی پی این پالیسی کا جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ پالیسی کام نہیں کرسکتی۔ ان کے بقول،’حکومت ہم سے ہمارے کلائنٹس کے آئی پی ایڈریسز مانگ رہی ہے، جن کے ساتھ ہم نے نان ڈسکلوزر ایگریمنٹ کیے ہوئے ہیں۔‘
پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن کے صدر طفیل احمد خان کہتے ہیں،ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناتے ہمیں ایک کاروبار دوست پالیسی بنانی چاہیے۔ قومی سلامتی بلاشبہ سب سے بڑی ترجیح ہے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ لوگ بے روزگار نہ ہوں۔
طفیل احمد خان نے مزید کہا کہ غیر ملکی کلائنٹس اور بڑے پراجیکٹس کے ساتھ فری لانسنگ کمیونٹی کو متعلقہ حکام کی جانب سے VPNs کو بلاک کرنے پر گہری تشویش ہے۔
پاکستان سافٹ وئیر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین محمد ذوہیب خان نے وی نیوز کو بتایا کہ وی پی اینز کی بندش سے فری لانسرز کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے فری رجسٹریشن کا عمل شروع ہوچکا ہے، اس لیے تمام آئی ٹی کمپنیاں اور فری لانسرز بہ آسانی رجسٹریشن کروا سکتے ہیں۔ کیونکہ پی ٹی اے سے صرف آئی پی ایڈریس ہی رجسٹرڈ کروانا ہے جس کے بعد کسی فری لانسر کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا۔
’یہ صرف پاکستان کی بات نہیں ہے، بہت سے ممالک میں وی پی این بلاک ہوتا ہے، اس کی رجسٹریشن کروانا ہوتی ہے‘۔
کیا وہ فری لانسرز جنہوں نے ابھی صرف 1 سے 2 پراجیکٹس ہی کیے ہیں، وہ بھی رجسٹریشن کروا سکتے ہیں؟
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تمام آئی ٹی کمپنیاں اور فری لانسرز بہت ہی آسانی سے اپنا آئی پی ایڈریس رجسٹر کروا سکتے ہیں، چاہے کوئی نیا ہی اس شعبے میں کیوں نہ آیا ہو۔ شناختی کارڈ، فون نمبر، ای میل آئی ڈی اور آئی پی ایڈریس وغیرہ جیسی معلومات درکار ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ 1 سے 2 ایسے پراجیکٹس جن پر کام کیا ہو، کوئی ای میل، کسی پیمنٹ کا ثبوت وغیرہ ساتھ میں لگانا ہوتا ہے، بہت ہی آسان عمل ہے جو انفرادی سطح پر سب آرام سے خود کرسکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر اور ٹیلی کام کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ مل کر کچھ ایسا پیکج متعارف کروائیں جس میں وہ کسٹمرز کو آئی پی ایڈریسز بھی دیں، انٹرنیٹ کنیکشن بھی بہترین ہو اور پی ٹی اے سے رجسٹریشن بھی کروا کر دیں، اس سے فری لانسرز کو مزید آسانی ہو جائے گی۔
فری لانسرز کے مسائل کے حوالے سے ان کا یہ بھی کہنا تھا ’فری لانسرز کو اتنے مسائل نہیں ہیں، جتنی پاکستان میں اس حوالے سے افراتفری مچا دی گئی ہے۔
’میرا ایک بڑی کمپنی کے سی ای او سے ملنا ہوا۔ جنہوں نے مجھے بتایا کہ ایک انگریز نے اس سے پوچھا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کے مسائل کے حوالے سے انٹرنیٹ پر بہت بات ہو رہی ہے۔ لیکن ہمارے لیے بہت پاکستانی کام کرتے ہیں۔ ہمیں تو ایسا ابھی تک کچھ مسئلہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ دوسرا یہ کہ وی پی این کی رجسٹریشن ابھی نہیں بہت پہلے سے ہو رہی ہے، اس لیے سب رجسٹریشن کروائیں، اس کے بعد کوئی مسئلہ ہی نہیں آئے گا۔‘