سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی پارلیمانی پارٹی کی حیثیت چیلنج کرنے سمیت 4 مختلف درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی ہیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کیخلاف مولوی اقبال حیدر کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے 2 مقدمات سماعت کے لیے ریگولر بینچ کو واپس بھیج دیے
مولوی اقبال حیدر کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے درخواست بروقت دائر کی گئی تھی، اب اس مقدمہ کا نظر ثانی کیس زیر التوا ہے، انہوں نے عدالت سے کسی مقدمہ میں اس معاملہ کو دیکھنے کی استدعا کی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ آپ ہم سے غیرآئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں، امیدواروں کی مرضی ہے کہ سیاسی جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں، جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار پھر اسی طرف جا رہے ہیں جس وجہ سے پابندی لگی تھی۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ میں کام کی رفتار تیز، آئینی بینچ نے 3 روز میں کون سے اہم مقدمات سنے؟
عدالت نے مولوی اقبال حیدر کی درخواست پر رجسڑار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔
ایک اور درخواست پر سماعت کرتے ہوئے آئینی بینچ نے تمام سرکاری عہدہداروں کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست بھی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔
آئینی بینچ کی رکن جسٹس عائشہ ملک نے درخواست گزار سے دریافت کیا کہ آپ نے متعلقہ اداروں سے کیوں نہیں رجوع کیا، آپ کی درخواست میں استدعا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے انہیں فارغ کریں۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ میں آئینی بینچ فعال، قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف درخواست خارج
درخواست گزار کا موقف تھا کہ کوئی نہیں شنوائی نہیں ہوتی اس لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جس پر جسٹس عائشہ ملک بولیں؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز لے کر سپریم کورٹ پہنچ جائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ نے نہ کسی سرکاری افسر کی نشاندہی کی اور نہ ہی کسی فرد کا نام لکھا، جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ آپ کا کون سا کام نہیں ہوا عدالت کو بتائیں۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کا تذکرہ، ججوں کے دلچسپ ریمارکس
درخواست گزار کا موقف تھا کہ سسٹم تباہ ہو چکا ہے سچ کوئی نہیں سننا چاہتا، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛اس کا کیا مطلب ہے ہم صدر، وزیر اعظم، اسپیکر اور پارلیمنٹرین سب کو نکال دیں۔ایک اور درخواست میں سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق شکایت پر ابتدائی سماعت کے بعد آئینی بینچ نے اسے بھی خارج کردیا ہے۔
درخواست گزار کا موقف تھا کہ 90 فیصد سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی ہی نہیں ملتی، جس پر جسٹس عائشہ ملک بولیں؛ کس سروے کی بنیاد پر آپ بول رہے ہیں کہ 90 فیصد لوگوں کو رسائی حاصل نہیں، ہمیں بھی وہ سروے دکھائیں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں کام کی رفتار تیز، آئینی بینچ نے 3 روز میں کون سے اہم مقدمات سنے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آ پ کو براہ راست سن رہے ہیں اس سے زیادہ کیا رسائی چاہیے، آپ تو اپنے ہی ادارے کو برباد کر رہے ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل کے مطابق کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 120 ہے، کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 150 ہے، پتا نہیں یہ نمبر کہاں سے آتے ہیں۔
اعلیٰ عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے سے متعلق درخواست بھی سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے خارج کردی، بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے درخواست گزار کو اس ضمن میں پارلیمنٹ سے قانون سازی کروانے کا مشورہ بھی دیدیا۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کا تذکرہ، ججوں کے دلچسپ ریمارکس
سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فوجداری قانون سمیت کئی قوانین میں ٹائم لائن موجود ہے، جس پر درخواست گزار حسن رضا بولے کہ ٹرائل مکمل ہوتے ہوتے 20 سے 40 سال لگ جاتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک بولیں؛ ایسی عمومی باتیں نہ کریں،الزام نہ لگائیں، نظام بہت کامل نہیں ہے لیکن پیش رفت ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں:ملازمین کی بحالی سے متعلق درخواستیں آئینی بینچ کے سپرد
درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ان کی درخواست نیشنل جوڈیشل پالیسی سے متعلق ہے، آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت اس درخواست پر کسی کو ہدایت نہیں جاری کریں گے۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ جہاں اصلاحات ہو رہی ہیں وہاں جاکر شمولیت اختیار کریں، عدالتی ریفارمز کے لیے لا اینڈ جسٹس کمیشن موجود ہے، اس سے رجوع کریں، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
مزید پڑھیں:26ویں آئینی ترمیم کیخلاف ایک اور درخواست سپریم کورٹ میں دائر
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدلیہ آئین اور قانون کے تابع ہے، جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ اگر ہماری طرف سے بھی سخت ردعمل آیا تو مایوسی پھیلے گی، عدالت نے درخواست خارج کردی۔