“ہماری شادی کے صرف ایک سال بعد جب میرے شوہر نے غیر قانونی طور پر اٹلی جانے کا ارادہ کیا تو میں اس بات کے حق میں نہیں تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہماری ایک بیٹی بھی ہے، آپ کی غیر موجودگی میں میرا اور اس کا خیال کون رکھے گا؟ لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی اور 6 جولائی 2013 کو بے روزگاری کی وجہ سے غیر قانونی طور پر براستہ ایران، اٹلی کے لیے روانہ ہو گئے۔”
یہ الفاظ 29 سالہ سکینہ کے ہیں جن کی شادی فروری 2012 میں ہوئی تھی۔ شادی کے 17 مہینے بعد ان کے شوہر اٹلی کا ارادہ کیے گھر سے ایسے نکلے کہ آج تک اٹلی پہنچے نہ گھر لوٹے۔
شوہر کے جانے کے 5 مہینے بعد سکینہ کے ہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی جس کی پیدائش کی اطلاع بھی اس کے والد تک کئی دنوں کے بعد پہنچی۔ ‘اگر میرے شوہر پاکستان میں ہی رہتے تو ہم کوئی بھوک سے مر نہ جاتے، مگر میرے شوہر کے باہر جانے کے فیصلے نے ہمیں زندہ ہی مار دیا ہے۔ میں لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ خدارا جاتے وقت اپنی بیوی، بچوں اور گھر والوں کے بارے میں پہلے سوچیں۔ آپ لوگ ہمیں کس کے آسرے پر چھوڑ کر جاتے ہو؟’
سکینہ کا اپنے شوہر سے بہت کم رابطہ ہوتا تھا۔ کال پر تھوڑی سی بات بھی تب ہو پاتی تھی جب سکینہ انہیں دو تین کارڈ لوڈ کراتی تھی۔ آخری بار ان کے شوہر نے انہیں بتایا کہ وہ لیبیا میں ہیں اور کچھ ہی گھنٹوں میں وہاں سے اٹلی کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔ اس کے بعد سے سکینہ کا اپنے شوہر سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
سکینہ نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا کہ پچیس جولائی 2014 کو میں نے اپنے شوہر کی آخری بار آواز سنی تھی۔ اس کے بعد جب بھی میرے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے تو میں خوش ہو جاتی ہوں کہ شاید یہ میرے شوہر کی کال ہو، مگر ہمیشہ کی طرح نا امید اور افسردہ ہو جاتی ہوں۔’
سکینہ کی ایک بیٹی اب پانچویں جبکہ دوسری چھٹی جماعت میں پڑھتی ہے۔ سکینہ نے بتایا کہ دل تب خون کے آنسو روتا ہے جب میری بیٹیاں مجھ سے اپنے والد کے بارے میں پوچھتی ہے کہ وہ کب آئیں گے، ہم ان کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
نہوں ے بتایا کہ ‘زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گیا ہے مگر ان بیٹیوں کے لیے جی رہی ہوں کیونکہ باپ کی کوئی خبر نہیں ، آیا زندہ بھی ہے یا نہیں۔’
شوہر کے لاپتہ ہونے کے بعد سکینہ کو ان کے سسرال والوں نے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ ہمارے اپنے اخراجات پورے نہیں ہوتے، آپ کا خرچہ کیسے اٹھائیں۔ اب وہ اپنی بیٹیوں کے ہمراہ اپنے والدین کے گھر رہ رہی ہیں، کسی نہ کسی طرح بیٹیوں کے تعلیمی اخراجات پورے کر رہی ہیں کیونکہ وہ ہر صورت اپنی بیٹیوں کو پڑھانا چاہتی ہیں تاکہ وہ کل کو ان کی طرح کسی کی محتاج نہ ہوں۔
سکینہ سے جب ان کے شوہر واپسی کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ میری امید ختم ہو چکی ہے، میرا شک ہے کہ میرے شوہر سمندر میں ڈوب کر مر چکے ہوں گے۔ انہوں نے لوگوں کے زریعے لیبیا کی جیل میں بھی اپنے خاوند کا پتہ کرایا مگر ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔
وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان سے گزشتہ 3 سالوں میں 17 ہزار 773 افراد غیر قانونی طریقے سے یورپ منتقل ہوئے۔ وزارت کی سینیٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے 34 ماہ میں روزانہ کی بنیاد پر 17 پاکستانی غیرقانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہوئے۔ جبکہ 146 پاکستانی بیرون ممالک سے ڈی پورٹ کیے گئے۔ اسی طرح سال 2021 میں ایک ہزار 270، سال 2022 میں 12 ہزار 837 افراد جبکہ سال 2023 میں اکتوبر تک 3 ہزار 666 افراد غیر قانونی طور پر یورپ منتقل ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق غیر قانونی طور پر سب سے زیادہ یعنی 15 ہزار 40 افراد ترکی میں، 1 ہزار377 افراد یونان میں، جبکہ 962 افراد غیر قانونی طریقے سے جرمنی میں داخل ہوئے۔
دوسری جانب گزشتہ تین 3 میں پاکستان ڈی پورٹ کی جانے والوں کی کل تعداد ایک لاکھ 54 ہزار 205 بتائی گئی ہے۔ 2021 میں 58 ہزار 758 افراد کو، 2022 میں 51 ہزار 869 جبکہ 2023 میں اکتوبر تک 43 ہزار 578 افراد کو بیرون ممالک سے پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا۔
اس کے علاوہ نامکمل یا جعلی دستاویزات پر پرواز سے اتارے گئے تارکین وطن کی کل تعداد 44 ہزار 283 ریکارڈ کی گئی۔2021 میں 6 ہزار 774، 2022 میں 19 ہزار 55 جبکہ 2023 میں اکتوبر تک 18 ہزار 454 تارکین وطن کو ناکافی یا جعلی دستاویزات پر پرواز سے اتارا گیا ہے۔ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی وجہ سے اموات کے کیسز ایف آئی اے کو رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں۔ آخری رپورٹ شدہ کیس یونانی کشتی کا سانحہ تھا جو اپریل 2023 میں پیش آیا تھا۔
یونان کشتی حادثے کے بعد 89 انسانی سمگلرز کو ایف آئی آرز میں نامزد کیا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ 35 سمگلرز بیرونی ممالک مقیم ہیں۔ گزشتہ 3 سال میں انسانی سمگلرز کے خلاف ایک ہزار 42 مقدمات درج ہوئے جن میں کئی سمگلرز اور ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا اور مجموعی طور پر 499 افراد کو سزا دی گئی۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 2024 میں 4 لاکھ 60 ہزار 262 پاکستانی قانونی طریقے سے بیرون ممالک ملازمت کے لیے جاچکے ہیں۔ قانونی طور پر باہر ممالک جانے والے وہاں بہتر زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ وہاں سے اپنے ملک میں قیمتی زر مبادلہ بھی بھیجتے ہیں۔ مگر جو لوگ غیر قانونی طور پر جاتے ہیں تو وہاں پر انتہائی تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں اور ہر وہ کام کرنے سے پیسے کماتے ہیں جو انہوں نے کھبی کیا بھی نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے خاندان والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ کس مجبوری کے تحت پیسے کما کر بھیجتے ہیں۔
ہیومن رائیٹس کونسل آف پاکستان اسلام آباد کے چیئرمین زاہد سلطان نے بتایا کہ پاکستان کی آبادی لگ بھگ 24 کروڑ ہے جس میں سے 64 فیصد کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق 30 فیصد نوجوان ایسے ہیں جن کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ نوجوانوں کو کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نوجوانوں کی کوئی قدر نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لیے روزگار کے مواقع ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کے اندر مواقع کی کمی کی وجہ سے پاکستان سے غیر قانونی طور پر جانے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
لوگ اپنے آپ اور اپنے خاندانوں کے لیے بہتر مواقع اور مستقبل کے منصوبوں کی تلاش میں پاکستان چھوڑ دیتے ہیں۔ محدود وسائل کے حامل پسماندہ افراد غیر قانونی طور پر ملک سے فرار ہونے کے لیے ایجنٹوں اور مافیا کے ہتھے چڑھ کر اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
حکومت کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قانونی مائیگریشن کے مواقع اور مناسب ذرائع فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ایسا کرنے سے ملک کو قیمتی زر مبادلہ بھی حاصل ہوگا اور وہاں پر نوجوان قانونی طور پر رہ کر اپنی زندگیاں بھی بہتر کر سکیں گے۔