پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی لانگ مارچ کے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہونے کا یہ تیسرا دن ہے۔ پی ٹی آئی کا قافلہ اسلام آباد کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان کی جانب سے 24 اکتوبر کو فائنل احتجاج کی کال دی گئی تھی اور ملک بھر سے پی ٹی آئی کارکنان کو اسلام آباد ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اس ساری صورتحال کے سبب اسلام آباد کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ شہر بھر میں انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں جس کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ بالخصوص وہ افراد جن کا روزگار آن لائن کیب سروسز سے منسلک ہے۔
وی نیوز نے چند رائیڈرز سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ انٹرنیٹ کے نہ ہونے کے باوجود وہ کیسے کیب سروسز فراہم کر رہے ہیں؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ان ڈرائیو چلانے والے اسلام آباد کے رہائشی سید سیف کا کہنا تھا کہ ان دنوں انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے کام کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے کیونکہ آن لائن رائیڈ کے لیے انٹرنیٹ بہت ضروری ہے۔ انٹرنیٹ نہیں ہوگا تو کام ہی نہیں ہوگا۔ کمائیں گے نہیں تو بھوکے مر جائیں گے۔ اسی کو مد نظر رکھ کر غریب کو روزی روٹی کے لیے کوئی نہ کوئی جگاڑ لگانا پڑتا ہے۔
’کل کا دن گزارا تو بہت ہی مشکل ہوئی۔ گاڑی اپنی نہیں ہے۔ ماہانہ پیسے مالک کو دینا ہوتے ہیں۔ اور روز کی بنیاد پر گھر کا خرچ بھی نکالنا ہوتا ہے۔ اسی لیے جب کچھ سمجھ نہ آئی تو یہی ذہن میں آیا کہ میرا بھائی گھر بیٹھ کر وائی فائی کے ذریعے رائیڈز بک کر کے مجھے کال کر کے لوکیشن بتا دے میں سواری کو وہاں سے پک کر لوں۔ بس یہی سوچ کر گھر سے نکل آیا۔ اور یہ تجربہ کامیاب بھی ہوا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ صبح سے اب تک 12 رائیڈز اٹھا چکے ہیں۔ اور اس سے کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوا۔ ان کے بھائی سید سیف سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس وقت کس جگہ موجود ہیں۔ اور پھر اس ایریا کی رائیڈز تلاش کرتے ہیں جونہی رائیڈ ملتی ہے، اس کی ریکویسٹ قبول کر کے سیف کو اطلاع کر دیتے ہیں کہ فلاں گلی اور ہاؤس نمبر سے رائیڈ پک کر لیں۔ یوں دونوں بھائیوں نے مل کر اس تجربے کو کامیاب بنایا۔
’شکر ہے کہ موبائل سروسز معطل نہیں ہوئیں ورنہ گھر کا نظام بہت مشکل ہو جاتا۔ غریب جگاڑ لگا کر ہی روزی روٹی کما سکتا ہے۔ ورنہ اس ملک میں 2 وقت کی روٹی کھانا کون سی آسان بات ہے۔‘
محمد وارث بھی آن لائن کیب سروسز فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے مجبور لوگوں کی زندگیاں بہت متاثر ہوتی ہیں کیونکہ ہمارا روزگار ہی اس سے جڑا ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حال ہی میں قسطوں پر گاڑی لی ہے۔ انہیں اپنی ماہانہ قسط کے لیے ہر صورت پیسے محفوظ کرنا ہوتے ہیں۔ ورنہ انہیں جرمانہ بھی دینا پڑتا ہے۔ بات صرف جرمانے کی نہیں اگر اس مہینے پیسے لیٹ ہوئے تو اگلے مہینے بھی لیٹ ہوجائیں گے اور پھر یہ ایک معمول ہی بن جاتا ہے۔ مجبوری نہ ہو تو کسی کا بھی یوں باہر نکلنے کو دل نہیں کرتا۔ جہاں ان دنوں آج کل تمام لوگ اپنے گھروں میں آرام کرتے ہیں، ہمارا بھی آرام کرنے کو دل کرتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے دوران ایک ہی چیز نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی ایریا ہی کی رائیڈز بک کرتے ہیں۔ اور شکر ادا کرتے ہیں کہ فون کال کی سہولت موجود ہے۔ سواری سے ان کی کانٹیکٹ ڈیٹیل لے کر ان کی لوکیشن پر پہنچ جاتے ہیں۔
’سواری کو جس لوکیشن پر ڈراپ کرنا ہوتا ہے، اس لوکیشن کے انٹرنیٹ کا پاس ورڈ لے کر موبائل کنیکٹ کر لیتا ہوں۔ کیونکہ ان دنوں زیادہ تر آفسز میں جابز کرنے والے افراد یا پھر وہی سواریاں ہوتی ہیں جو رشتہ داروں کے گھر میں جاتی ہیں۔ آج کل وائی فائی کی سہولت ہر گھر اور آفس میں ہوتی ہے۔ یوں انٹرنیٹ جب کنیکٹ ہوجاتا ہے تو وہاں سے رائیڈ پک کر کے دوسری لوکیشن پر چلا جاتا ہوں۔ وہاں بھی ایسا ہی کرتا ہوں۔ کوشش ہوتی ہے کہ گھر سے اتنی دور نہ جاؤں کہ اگر رائیڈ نہ بھی ملے تو واپسی پر بجائے منافع کے نقصان ہوں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ لوگ اس طرح کے حالات میں واقعی مدد کرتے ہیں۔ ابھی تک ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے انٹرنیٹ دینے سے منع کیا ہو۔ لوگوں میں احساس ہے اور وہ دوسرے کی مدد کر کے اس چیز کو واضح کرتے ہیں۔
احمد خان کا اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ان کی رہائش اسلام آباد ایچ 13 کی ہے۔ وہ ایچ 13 اور دیگر قریبی سیکٹرز تک ہی محدود رہ کر گاڑی چلا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کوئی خاص سواری تو نہیں مل رہی کیونکہ ایک تو چھٹی بھی تھی اور دوسرا انٹرنیٹ بالکل بھی نہیں چل رہا۔ گھر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے ہی علاقے سے رائیڈ اٹھاتا ہوں۔ اور سواری کو کہہ دیتا ہوں کہ وہ رائیڈ کینسل کر دیں۔ تاکہ ان ڈرائیو والوں کو جو ہم نے پرسینٹیج دینا ہوتی ہے۔ کم از کم اس سے بھی چھٹکارا حاصل ہو جائے۔
’جب سواری کو اس کی لوکیشن پر اتار دیتا ہوں تو اسی علاقے کی سواریاں اٹھاتا رہتا ہوں۔ لوکل سواری ہو یا پھر کوئی بھی۔ اور جس سواری کو اتارا ہوتا ہے جب اس نے واپس اسی علاقے میں جانا ہوتا ہے، جس جگہ سے اس کو صبح اٹھایا تھا وہیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک تو میرے گھر کے قریب لوکیشن ہوتی ہے۔ اور جب تک اس پہلی سواری کے واپس پک کرنے کا وقت آتا ہے اس وقت تک 2 سے 3 رائیڈز مل ہی جاتی ہیں۔ جس سے کم از کم نقصان نہیں ہوتا نہ ہی وقت ضائع ہوتا ہے۔‘