تاریخی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے اپوزیشن میں بیٹھنے کی بجائے اپنے تمام ارکان قومی اسمبلی کو مستعفی ہونے پر مجبور کرکے سڑکوں پر تحریک چلا کر انقلاب لانے کا فیصلہ کیا۔
ان کے قریبی ساتھی سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ ایک بھی رکن اسمبلی استعفیٰ دینے کے حق میں نہیں تھا مگر سب نے عمران خان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے استعفے اسپیکر کو جمع کروا دیے۔
عمران خان نے ایک جلسے میں سائفر لہراتے ہوئے انکشاف کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور سیاستدانوں نے امریکا کے کہنے پر انہیں اقتدار سے محروم کیا۔ امریکا اور فوج کےخلاف تندوتیز حملے کرکے عوامی مقبولیت تو حاصل کر لی مگر مقتدرہ میں قبولیت نہ مل سکی۔ انہیں اپنے ساتھیوں سمیت درجنوں کیسوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جیل میں بیٹھ کر بھی ایک طرف وہ اپنے کارکنان کو انقلاب کی خوشخبریاں دیتے ہیں اور فوجی سپہ سالار کے خلاف قبر تک پیچھا کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں تو دوسری طرف اسی مقتدرہ سے مذاکرات بھی چاہتے ہیں۔
آے روز اپنی جماعت کے رہنماؤں اور سپورٹرز کو بھرپور احتجاج کی کال دی جاتی ہے مگر وہ مطمئن نہیں ہوتے۔ ہر مظاہرے کے بعد انہوں نے پارٹی رہنماؤں کی سرزنش کی کہ آپ زوردار طریقے سے احتجاج کریں گے تو انہیں رہائی مل سکے گی۔ اس مرتبہ انہوں نے ’فائنل کال‘ کے لیے یہ ٹاسک بشریٰ بی بی کو سونپ دیا۔ بشریٰ بی بی نے اسلام آباد داخل ہونے سے قبل اعلان کیا کہ وہ ڈی چوک ہی پہنچیں گے اور جب تک عمران خان رہا ہو کر ڈی چوک خود پہنچ کر دھرنا ختم کرنے کا خود اعلان نہیں کرتے وہ وہاں سے نہیں جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: اسموگ: ایک اور المیہ
عمران خان رہا ہوئے اور نہ دھرنا ایک دن سے زیادہ چل سکا۔ سنہ 2014 میں 126 روز کا دھرنا نواز شریف کی حکومت ختم کرنے میں ناکام رہا اور اس مرتبہ ’فائنل کال‘ بھی کام نہ آئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر اقتدار میں آنے والے عمران خان کی جماعت انقلاب نہ لاسکی۔ انہیں یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ان کی جماعت انقلابی جماعت نہیں ہے۔
9 مئی کے بعد ڈی چوک میں دھرنے کی ناکامی سے جماعت کو ایک ایسا دھچکا لگا ہے کہ کارکنان کی مایوسی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ 9 مئی کے بعد ہونے والے سخت ترین کریک ڈاؤن نے پارٹی کے اندر یہ خوف پیدا کردیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑ نہیں سکتے اور اب ڈی چوک کے دھرنے کی ناکامی نے کارکنان کو مایوسی اور بے بسی کے گہرے سمندر میں ڈال دیا ہے۔ بغیر کسی منصوبہ بندی کے ’فائنل کال‘ بری طرح فلاپ ہوگئی۔
مزید پڑھیے: کیا واقعی اس حکومت کے پاس زیادہ وقت نہیں؟
’فائنل کال‘ کی ناکامی سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تحریک انصاف کسی بڑے انقلاب کا خواب سوچنا چھوڑ دے۔ انقلاب کی منصوبہ بندی چند دن یا ایک 2 مہینوں میں نہیں ہوسکتی۔ عمران خان کو جان لینا چاہیے کہ ایک مضبوط اسٹیبلشمنٹ جسے دیگر بڑی جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے کے خلاف وہ محض نعروں اور دھمکیوں کے بل بوتے پر رہا ہوکر دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ 9 مئی کے واقعے سے انہیں اپنی پارٹی کے اندر رہنماؤں اور کارکنوں کی سوچ اور ہمت کے بارے میں آگاہی حاصل کرنی چاہیے کہ وہ ایسی کسی احتجاجی تحریک میں سڑکوں پر آنے سے خوف زدہ ہو چکے ہیں۔
’فائنل کال‘ میں پنجاب سے پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کی عدم دلچسپی پر بھی غور ہونا چاہیے کہ لوگ باہر کیوں نہیں نکل سکے۔ اسلام آباد جانے کے تمام راستے بند تھے اور پارٹی کی پنجاب سے قیادت نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی کہ اسلام آباد کیسے پہنچنا ہے اور نہ ہی دھرنے کے روز لاہور سمیت پنجاب کے بڑے شہروں میں کارکنان کہیں نظر آئے۔ تحریک انصاف کے کارکن 9 مئی کی کارروائیوں سے خوف زدہ ہیں وہ کسی تحریک کا حصہ نہیں بننا چاہتے جس کے نتیجے میں انہیں جیلوں میں جانا پڑے۔
سوشل میڈیا پر انقلاب کی باتیں کرنے والے سڑکوں پر نکلنے سے گھبراتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں البتہ تحریک انصاف کے ووٹر نے بھرپور طریقے سے اپنی جماعت کو ووٹ ڈالے اور انہوں نے اپنے غصے کا اظہار الیکشن والے روز کردیا۔
مزید پڑھیں: عدلیہ اور کاروبار
24 نومبر کے ڈی چوک کے دھرنے نے ایک بار پھر عیاں کیا کہ عمران خان یا بشریٰ بی بی کے سوا پارٹی میں کسی رہنما کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے والی قیادت کے پاس اختیار نہیں تھا کہ وہ حتمی بات کرسکیں۔ سنگجانی کے مقام پر اتفاق کرنے کے باوجود بشریٰ بی بی نے ڈی چوک جانے کی ضد کی اور تمام رہنما بے بس نظر آئے۔ انقلاب نہ آسکا اور نہ ہی آئے گا۔ تحریک انصاف انقلات لانے جیسے بے سود تجربے کرنے کی بجائے اپنے سپورٹرز کو ایک پائیدار حکمت عملی اور منشور دے تاکہ وہ سیاسی طریقے سے معاملات کو حل کرسکے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔