شیر داد کی بندوق اور سو موٹو

ہفتہ 15 اپریل 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمارے علاقے میں شیر داد نامی ایک شخص نے بندوق خریدی تو بندوق کی نمائش اور اپنی دھاک بٹھانے کے لیے مونچھوں کی لمبائی میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ دن میں ایک دو بار کندھے پر بندوق رکھ کر گاؤں کا چکر بھی لگا آتا۔

ایک بار رات کو اس کے گھر چور آئے جس پر شیر داد نے  بیوی سے کہا کہ باقی کام چھوڑ کر فوراً بندوق چھپا لو کہیں اس پر چوروں کی نظر نہ پڑ جائے۔

بیوی نے اپنے ‘دانا اور بہادر‘ شوہر کے حکم کی تعمیل کی اور بندوق کو بھوسے کے ڈھیر میں چھپا دیا۔ اس دوران ’مالک‘ بندوق ’بچانے‘ میں تو کامیاب ہو گیا لیکن چور سکون کے ساتھ گھر کا صفایا  کر کے چلے گئے۔

دوسرے دن جب پورا گاؤں جاگ گیا تو شیر داد نے اپنی بندوق بھوسے کے ڈھیر سے نکالی اور گاؤں کا چکر لگاتے ہوئے کہا کہ رات بہت مشکل وقت تھا کیونکہ چور بہت تجربہ کار تھے لیکن وہ یاد رکھیں گے کہ میں بھی ’بندوق بچانے میں کامیاب‘ ہو گیا۔

سو آج کل زبان زد عام سوموٹو سے ’شیر داد‘ بھی یاد آیا اس کی ’بندوق‘ بھی یاد آئی اور ’چور‘ بھی یاد آئے کیونکہ چار طویل مارشل لاز اور آئین شکن آمروں کے سامنے ایک بار بھی سوموٹو ’بھوسے کے ڈھیر‘ سے باہر نہیں نکالی گئی اور چور بڑے سکون کے ساتھ گھر کا صفایا کرتے چلے گئے، حتیٰ کہ ان چوروں پر سوموٹو تاننے کے بجائے تسلسل کے ساتھ نظریۂ ضرورت سے ایل ایف او تک کی گل پاشی بھی ہوتی رہی۔

سوموٹو کی غنودگی و بیداری کا معاملہ بھی عجیب ہے کیونکہ اگر عمران خان کے اقتدار کا معاملہ ہو تو وطن عزیز کو خوفناک دہشت گردی کا سامنا ہی کیوں نہ ہو اگر ’مخالفین‘ کو کچلنا ہی مقصود ہو تو خواہ ملک بد ترین معاشی بحران کا شکار ہی کیوں نہ ہو  اگر ایک منتخب وزیر اعظم پھانسی چڑھ جائے دوسرے وزیر اعظم کو دن دھاڑے قتل کر دیا جائے اور تیسرا وزیر اعظم ایک آمر کے ہاتھوں جلا وطن کیا جائے لیکن وزیر آباد میں لگنے والے ’مشکوک چھرے‘ اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ شیر داد مع اپنے خوابیدہ سوموٹو فوراً انگڑائی لےکر بیدار ہو جاتے ہیں بلکہ ’پورے گاؤں کا چکر بھی لگا آتے ہیں‘ لیکن ستم بالائے ستم کہ سوموٹو کی  ضرورت جب بھی پڑی تو وہی بھوسے میں چھپانے والی بات ہو جاتی ہے۔

نہال ہاشمی، دانیال عزیز یا طلال چودھری تاریخ کے بدترین جج ثاقب نثار کے فیصلوں پر شکوہ بھی کریں تو سزا و نا اہلی ،لیکن اوئے فلاں جج میں تمہیں دیکھ لوں گا ، اوئے فلاں تم کرپٹ ہو اور اوئے فلاں میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا جیسے بیانات جاری کرنے والے پر نظر التفات برس رہی ہے جب کہ سوموٹو کسی بھوسے کے ڈھیر میں پڑا ہے۔

طرفہ تماشا ملاحظہ ہو کہ اگر منتخب لیکن ’نا پسندیدہ‘ وزیر اعظم کسی وفاقی ادارے میں اپنے آئینی اور انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی رد و بدل کا حکم بھی دے تو اس پر عدالت عظمیٰ سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے مخصوص ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دے کر ’انصاف کا بول بالا‘ کرنے نکل آتا ہے۔ لیکن وژن اور ذہنی استعداد ملا حظہ ہو کہ خوفناک دہشت گردی، بد ترین معاشی بحران، نازک عالمی صورتحال اور سیاسی و جمہوری روایات سے بے خبر ایک لا ابالی شخص کے منہ سے ایک مضحکہ خیز مطالبہ کیا نکلا کہ در و بام سوموٹو سے گونج اٹھے۔ تاہم اس شور و غل اور ہنگامہ آرائی کے دوران بھی عالی مرتبت ایوان کے سامنے بلند آواز اور واضح الفاظ کے ساتھ چند سوال پوچھے جائیں گے کہ۔۔۔ ایک سوموٹو جسٹس وقار احمد سیٹھ مرحوم کی اس دلیر عدالت کو بھی درکار تھا جس نے تاریخ کے بدترین آمر پرویز مشرف کو اس کے جرائم کی بنیاد پر غدار ڈکلیئر کرتے ہوئے نہ صرف پھانسی کی سزا سنائی بلکہ دو کے بجائے ایک پاکستان کی عملی طور پر بنیاد بھی رکھ دی تھی ،لیکن جسٹس مظاہر اکبر نقوی فیصلہ تو کیا بلکہ پوری عدالت تک اڑا دیتا ہے۔لیکن ملک کی آئین و قانون کو ہلا دینے والے اس واقعہ پر کوئی سوموٹو نہیں لیا گیا تھا۔

چند ماہ پہلے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی وہ فون کال بھی سامنے آئی جب پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے وزراء خزانہ (تینوں کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے) کو ملکی معیشت کی تباہی اور عالمی سطح پر بدنامی کے ہدایات جاری کر رہا تھا، لیکن سنگین غداری کے مرتکب تینوں ملزمان آزاد نہیں پھر رہے بلکہ دوسروں کو غدار بھی قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اس پر بھی کوئی سوموٹو دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔

اربوں روپے کا پاپا جونز اسکینڈل سامنے آیا۔ملزم اس سے پہلے حساس ادارے میں بہت اہم پوزشنز پر بھی رہا تھا، تا ہم اسکینڈل طشت از بام ہونے کے وقت وہ حکومت کا مشیر اطلاعات بھی تھا اور سی پیک کا چیئرمین بھی، لیکن کاغذ کا ایک سادہ سا ٹکڑا وزیر اعظم عمران خان کے سامنے رکھا گیا اور وزیر اعظم ’مطمئن‘ ہو گئے۔

عوام اور سوشل میڈیا نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن نہ کوئی انکوائری ہوئی نہ نیب حرکت میں آیا۔ جب کہ سوموٹو بھی حسبِ سابق گہری غنودگی میں رہا۔

راولپنڈی رِنگ روڈ اسکینڈل میں اربوں کا گھپلا پکڑا گیا اور سب سے بڑے ملزم کی نشاندہی وزیر اعظم عمران خان کے ایک مشیر زلفی بخاری کے نام کی ہوئی لیکن کچھ دنوں بعد زلفی بخاری لندن ’بھیج‘ دیے گئے، غلام سرور خان بدستور وفاقی وزیر رہے اور رِنگ روڈ اسکینڈل کا گند قالین کے نیچے دھکیل دیا گیا جب کہ سوموٹو حسب توقع ندارد۔

برطانوی عدالت نے ملک ریاض اور مشیر احتساب شہزاد اکبر کا گھپلا پکڑا اور 150  ارب کے قریب پیسے حکومت پاکستان کو دینے کا حکم دیا۔ اگلے دن وزیر اعظم عمران خان نے ایک پر اسرار سا کاغذ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں لہرایا اور پلک جھپکتے میں وہ پیسے حیرت انگیز طور پر خزانے میں آنے کی بجائے ملک ریاض کے جیب میں چلے گئے۔ لیکن سوموٹو دور دور تک نظر نہیں آیا۔

فرح گوگی کے ہوش ربا اسکینڈلز اور تباہ کن انتظامی مداخلت کی کہانیاں سامنے پڑی ہیں ۔ فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ جیسے میگا کرپشن کے ساتھ ساتھ ہیرے کی انگوٹھی، القادر ٹرسٹ اور کورونا فنڈ میں 12 سو ارب کی کرپشن الگ ہے۔ ایک سوموٹو کا سوال یہاں بھی ہے۔

بدنام زمانہ پاناما کے حوالے سے جج ارشد ملک کی اعترافی وڈیو بھی سامنے آئی، جسٹس شمیم رانا کا بیان بھی سامنے آیا۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن ٹیلی ویژن چینلوں پر چیختا رہا کہ وزیر اعظم عمران خان مجھ پر مسلسل دباؤ ڈالتا رہا کہ میرے مخالف سیاستدانوں پر کیسز (جھوٹے ہی سہی ) بناؤ اور انہیں جیلوں میں ڈالو ورنہ تمھارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود بھی کوئی سوموٹو دکھائی نہیں دیا۔

بد نام زمانہ ثاقب نثار کی ڈیم فنڈنگ اور اس میں اربوں کے گھپلوں کے معاملات سامنے آئے لیکن۔۔۔ سوموٹو کا انتظار تا حال جاری ہے۔

فیض حمید ٹولے کے آئین سے بالاتر اقدامات اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے خود سر لیکن تباہ کن فیصلوں کے حوالے سے ایک سوموٹو وہاں بھی درکار ہے۔ ایک عدد سوموٹو کا سوال اس وقت بھی تھا جب سینیٹ چیئرمین کے لیے ووٹنگ ہو رہی تھی  اور صاف ظاہر تھا کہ اپوزیشن ممبران کی تعداد 64 جب کہ اپوزیشن یعنی حکومتی ارکان کی تعداد اس سے آدھی یعنی 34 تھی، ظاہر ہے کہ چیئرمین اپوزیشن کا منتخب ہونا تھا لیکن ’34 والے‘ جیت گئے اور سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے ۔یہ انہونی کیسے ہو گئی؟

کاش کوئی سوموٹو لیتا اور اس کم نصیب وطن میں طاقتوروں سے پوچھ گچھ کی رِیت پڑ جاتی۔

ابھی ایک سال پہلے ملک کے آئین و قانون کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا (بلکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے) وہ سب کے سامنے ہے۔ قاسم سوری نے مضحکہ خیر رولنگ کے ذریعے آئین و قانون کو بلڈوز کیا۔ عمران خان سپریم کورٹ کے حکم کے سامنے جھکنے کی بجائے چند چپیڑوں کے سامنے جھکا ،گورنر پنجاب آئین کو تماشا بنا گیا ، حتیٰ کہ صدر مملکت عارف علوی کسی ضدی بچے کی مانند آئین و قانون پر پاؤں رکھتا اور عمران خان کو چمٹتا رہا۔ لیکن سوموٹو کا ’پھل‘ ابھی تک کسی نے نہیں دیکھا۔

آٹا چینی اسکینڈل ہو، دواؤں میں 500 فیصد اضافہ اور میڈیسن کمپنیوں کے ساتھ مل کر وزیر صحت عامر کیانی کے گھپلے ہوں، جھوٹ اور گمراہی پھیلاتا میڈیا اور اس سے وابستہ حرام خوروں کا ٹولہ ہو۔ بعض ججز پر کرپشن اور لوٹ مار کے انتہائی خوفناک الزامات ہوں یا شہداء کی تضحیک اور تذلیل ہو ،لیکن سوموٹو کہیں بھی (بوقت ضرورت ) دکھائی نہیں  دیا، لیکن 90 دنوں میں الیکشن کا لاڈلا مطالبہ سوموٹو کے کندھوں پر سوار پوری تاریخ کو روندتے ہوئے اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔

یہ ہے اس بدنصیب ملک اور اس کے بد نصیب قوم کی کہانی جو اَب بھی چوراہوں پر ناچ ناچ کر اپنے اچھے مستقبل کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایک بد ترین معاشرے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہاں انصاف کے ایوانوں پر سوالات اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے تو یہ ملک انصاف کے معاملے میں 139 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے

حضرت علیؓ نے بجا فرمایا تھا کہ ’معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں‘، لیکن اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس معاشرے کو ایک زندہ معاشرہ کہا جا سکتا ہے؟ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے 139 وان نمبر والا زندہ معاشرہ۔

 

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp